افغان پناہ گزینوں کی ایران میں ناگفتہ بہ صورتحال
31 جولائی 2013کئی دہائیوں سے بحران کے شکار ملک افغانستان کے شہری ہمسایہ ملک ایران میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔ افغان بحران کا یہ سلسلہ 1979ء میں افغانستان پر سویت حملے سے شروع ہوا، جس کے نتیجے میں 1989ء تک نام نہاد مجاہدین یا مزاحمت کار جنگجوؤں کا ملک پر غلبے کا آغاز ہوا اور 2001 ء میں طالبان حکومت کے دور تک جاری رہا۔ 2003 ء سے طالبان نے ملک کے اندر صدر حامد کرزئی کی حکومت اور افغانستان میں متعین نیٹو فوج کے خلاف ایک دہشت گردانہ جنگ بپا کی ہوئی ہے۔ جب سے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ 2014 ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوج نکل جائے گی طالبان کی طرف سے افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں زیادہ سے زیادہ افغان باشندے اس بات سے خوفزدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ ملک سے غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ان پریشانیوں کے پیش نظر افغان باشندے ایران میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
’’غیرقانونی مہاجرین‘‘
ایرانی وزارت داخلہ کے مطابق پناہ کے متلاشی افغان باشندوں میں سے نصف کو بھی قیام کا قانونی اجازت نامہ نہیں ملتا کیونکہ بہت سے پناہ گزین غیر قانونی طور پر پیدل چلتے ہوئے ایران میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بہت سے پناہ گزینوں کو ’’غیرقانونی غیر ملکی‘‘ قرار دے کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں مغربی ایران کے شہر گُتوند میں ملا ثانی مہاجر کیمپ میں 300 کے قریب خاندان پھنس کر رہ گئے۔ اس حوالے سے ایران کے صوبہ خوزستان کے جنوبی شہر اھواز میں رہنے والے ایک افغان پناہ گزین کمال کا کہناہے، ’’مہاجرین نہ تو رہائشی مکانوں کا کانٹریکٹ کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں شہر سے باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان کی دستاویزات بھی قبضے میں لے لی جاتی ہیں۔‘‘
تہران حکومت اس قسم کے اقدامات ملکی سلامتی کے خطرات کے پیش نظر کرتی ہے، یہ کہنا ہے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے امور کے کمشنر برنارڈ ڈوئل کا جو تہران میں قائم UNHCR کے بیورو چیف ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ایران نہیں چاہتا کہ اُس کے پڑوسی ملک، افغانستان میں جو عدم استحکام پایا جاتا ہے وہ ایران تک پہنچ جائے۔
اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے زیادہ تر پناہ گزینوں کو دہاڑی پر کام کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر تعمیراتی پراجیکٹس یا اینٹوں کی فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ روزگار کی شدید کمی ہے اور بے روزگاری پناہ گزینوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کام کا اجازت نامہ بہت تاخیر سے ملتا ہے یا پھر اس کی توسیع نہیں کی جاتی اور اکثر اس کی درخواست رد کر دی جاتی ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ پناہ گزینوں کو اکثر وبیشتر بلا جواز اور عجیب و غریب طریقوں سے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایران میں افغان پناہ گزینوں کی انجمن کے ایک ترجمان سید شریف سعیدی کے بقول، ’’سلامتی کے ادارے ہمارے ساتھ نہایت تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بہت سے باشندے جنہوں نے افغانستان پر سویت حملے کے بعد ہی ایران آ کر پناہ لے لی تھی، انہیں بھی اب اتنے سالوں بعد واپس افغانستان جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘‘
افغانوں کی روحانی سے توقعات
سعیدی اور ان جیسے بہت سے افغان تارکین وطن یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایران کے نئے صدر حسن روحانی کا دور ایران میں تارکین وطن کا ایک نیا باب ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر منتخب ہونے پر روحانی کو مبارکباد دینے والوں میں سب آگے افغان پناہ گزینوں کےترجمان ہی تھے۔ یہ روحانی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں پناہ گزینوں کے مسائل کا حل جلد تلاش کریں۔ تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ عالمی برادری ایران کے ساتھ تعاون کرے۔ ایران پر لگی پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ اس کے مثبت اثرات ایران کی پناہ گزینوں کی صورتحال پر مرتب ہوں۔
دو طرفہ تعلقات کی بحالی
نئے صدر منتخب ہونے والے حسن روحانی نے دیگر ہمسایہ ممالک سمیت افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایران پر عائد پابندیوں کے سبب تیل کے ذخائر سے مالا مال اس ملک میں ادویات کی کمی ہوئی ہے، غذائی اجزاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے اور ایران کی کرنسی کی قدر بُری طرح گر گئی ہے۔ ایران میں چار لاکھ افغان پناہ گزین بچوں کو اسکول جانے کے لیے اجازت نامہ نہیں دیا گیا ہے۔
شیر محمدی طاہر/ کے ایم
افسر اعوان