افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری، جرمن حکومتی اہلکار کی تنقید
29 دسمبر 2015جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وفاقی حکومت میں انسانی حقوق سے متعلق کمیشن کے سربراہ کرسٹوف شٹریسر نے افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
شٹریسر نے یہ بات آج منگل کے روز جرمن اخبار ’ویلٹ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا، ’’کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں کچھ ایسے محفوظ علاقے ہیں جہاں افغان باشندے نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔‘‘
جرمنی کے وفاقی اور صوبائی وزارئے داخلہ نے دسمبر کے آغاز میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو جرمنی بدر کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ منصوبے کے تحت ان تارکین وطن کو افغانستان کے ان علاقوں میں بھیجا جانا تھا جنہیں جرمنی محفوظ سمجھتا ہے۔
جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں محفوظ علاقے موجود ہیں اور اصولی طور پر افغان تارکین وطن کو اپس بھیجا جا سکتا ہے۔ مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد شامی تارکین وطن کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
شٹریسر کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے،جو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے ساتھ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ شٹریسر نے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں محفوظ خطے موجود ہیں؟ جب کہ جرمنی نے حال ہی میں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
شٹریسر کا مزید کہنا تھا، ’’پناہ گزینوں کو ملک بدر کر کے نام نہاد محفوظ علاقوں میں بھیجنا اور پھر فوج کو ان کی حفاظت کے لیے متعین کرنا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔‘‘
گرین پارٹی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ گرین پارٹی کی مہاجرین کے امور سے متعلق ترجمان لوئزے آمٹس برگ نے اس فیصلے کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔
آمٹس برگ کا کہنا تھا، ’’افغانستان محفوظ ملک نہیں ہے۔ وزائے داخلہ کی جانب سے افغان تارکین وطن کی جبری ملک بدری کا فیصلہ غیر ذمہ دارانہ ہے اور یہ فیصلہ افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے برعکس ہے۔ افغانستان میں آئے روز ہونے والے حملوں میں عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔‘‘