افغانستان: ’اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود تعمیر نو نامکمل‘
1 فروری 2017اس طرح اِس ادارے نے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو دی جانے والی اپنی پہلی رپورٹ میں افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی ایک تاریک تصویر پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ افغان حکومت کو مشکل سے آدھے ملک پر کنٹرول حاصل ہے، اس کی سکیورٹی فورسز کی نفری کم ہوتی جا رہی ہے اور منشیات کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ مزید یہ کہ منشیات کے خاتمے کی کوششیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے افغان دارالحکومت کابل سے اپنے ایک جائزے میں اس رپورٹ کے ایک مثبت نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افغانستان میں ساز و سامان اور خدمات کی خریداری میں کی جانے والی بدعنوانی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے 2014ء کے انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آتے ہی کرپشن کے خلاف ایک ملک گیر مہم شروع کر دی تھی۔
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشنز آفس جان سوپکو نے دو سو انہتّر صفحات پر مشتمل اپنی یہ رپورٹ بدھ یکم فروری کو جاری کی ہے اور اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر تین مہینے بعد تیار کی جانے والی یہ رپورٹ بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے سامنے آنے والی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے۔ مزید یہ کہ واشنگٹن حکومت سن 2002ء سے اب تک افغانستان میں تعمیرِ نو اور دیگر منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر ایک سو سترہ ارب ڈالر فراہم کر چکی ہے اور نئی امریکی انتظامیہ کے لیے اس امداد اور اس کے نتائج کو جانچنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔
صرف گزشتہ تین ماہ کے دوران ہی جان سوپکو کے دفتر نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں ہوٹل اور رہائشی اپارٹمنٹس پر مشتمل ایک بڑی عمارت بنانے کا ننانوے ملین ڈالر کا ایک کنٹریکٹ اس بناء پر منسوخ کر دیا کہ افغان کنٹریکٹرز کو ادائیگی نہیں کی جا رہی تھی۔ اس تعمیراتی منصوبے کے لیے زیادہ تر مالی وسائل امریکا کی حکومت اور نجی اداروں نے فراہم کیے تھے۔
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشنز آفس کا قیام 2008ء میں ایسی رپورٹوں کے بعد عمل میں آیا تھا کہ افغانستان میں امریکی اور افغان کنٹریکٹرز کی بدعنوانی اور بد انتظامی کی وجہ سے امریکی ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر ضائع ہو رہے ہیں۔ سوپکو نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پندرہ سال کا عرصہ گزرنے اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود اس ملک میں تعمیر نو کا عمل کمزور اور نامکمل ہے: ’’باغیوں کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے افغان فوج کو ڈونرز کے مسلسل تعاون کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کی تربیت اور محدود مدد بھی بدستور درکار ہے۔‘‘
افغانستان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی اڑسٹھ سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل ترین آپریشن ہے تاہم سوپکو کا کہنا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی نفری کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ باغی پہلے سے کہیں زیادہ علاقوں کو کنٹرول کرتے جا رہے ہیں اور اپنا دائرہٴ اثر بڑھا رہے ہیں۔
’ایشیا فاؤنڈیشن‘ کے ایک سروے کے حوالے سے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر افغان یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2008ء سے ریکارڈ رکھے جانے کے بعد سے صرف گزشتہ سال ہی تنازعات کی وجہ سے نصف ملین سے زائد افغانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
گزشتہ ہفتے افغان وزارتِ دفاع نے بتایا تھا کہ پچھلے دَس ماہ کے دوران باغیوں نے اُنیس ہزار حملے کیے جبکہ اِسی عرصے کے دوران افغان سکیورٹی فورسز نے بغاوت کے انسداد کے لیے تقریباً سات سو آپریشن کیے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پہلے ملک کا 63.4 فیصد علاقہ افغان حکومت کے کنٹرول میں تھا، وہاں اب یہ علاقہ کم ہو کر محض 57.2 فیصد رہ گیا ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل حکومت کو بدستور ملک کے تمام چونتیس صوبوں پر کنٹرول حاصل ہے۔
طالبان نے اپنے دورِ حکومت کے آخری برسوں میں منشیات کی پیداوار پر پابندی لگا دی تھی جبکہ طالبان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی منشیات کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ امریکی ادارے SIGAR کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے مقابلے میں 2016ء میں افیون کی پیداوار میں تینتالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2016ء میں افغان کاشتکاروں نے پوست کے پودوں سے تقریباً چار ہزار آٹھ سو ٹن افیون تیار کی۔
پوست کی فصل تباہ کرنے کے سرکاری اقدامات میں بھی کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2016ء میں صرف 355 ہیکٹر (877 ایکڑ) رقبے پر پھیلی پوست کی فصلیں تباہ کی گئیں، جو کہ گزشتہ دَس سال میں سب سے کم رقبہ تھا۔