انخلا کے بعد پہلی بار زمینی راستے سے امریکیوں کی واپسی
7 ستمبر 2021امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کی تکمیل کے بعد پہلی بار چار امریکی شہریوں کو زمینی راستے سے افغانستان سے نکالا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ افغانستان کی صورت پر تبادلہ خیال کے لیے ایک ہنگامی میٹنگ کے سلسلے میں قطر کا دورہ کر رہے ہیں۔اس دورے میں شامل ایک افسر نے اس کی تصدیق کی ہے۔
مذکورہ افسر کا کہنا تھا، ''زمینی راستے سے انخلا کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا عمل تھا جو امریکی محکمہ خارجہ کی کوششوں سے ممکن ہو پا یا ہے۔'' تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر زمینی راستے کے انخلا کے لیے کس ملک کی سرحد کا استعمال ہوا اور کس شہر سے انہیں امریکا پہنچایا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق طالبان بھی اس انخلا سے اچھی طرح واقف تھے اور انہوں نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پیر کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے، جہاں ان امور پر بات چیت ہونی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان کی پیش رفت اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جائے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ صورت حال پر بہت قریب سے نگاہ رکھے ہوا ہے اور اس کی اس بات پر نظریں لگی ہیں کہ طالبان نے امریکی شہریوں کے محفوظ انخلا کے جو وعدے کیسے تھے انہیں پورا کرتے ہیں یا نہیں۔ واضح رہے کہ اب بھی بہت سے امریکی شہری افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
قطر کے حکمراں کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے دوحہ پہنچنے کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی ہے۔
امریکی وزیر خاجہ کے دورے کا ایجنڈا کیا ہے؟
دوحہ پہنچنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں قطر کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ افغانستان سے منتقل ہونے والے امریکی سفارتکاروں کی دوحہ نے اچھی طرح سے میزبانی کی۔ اطلاعات کے مطابق انٹونی بلنکن منگل کے روز اپنے سفارتی عملے کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
دوحہ میں بہت سے دیگر مسائل پر بات چیت کے ساتھ ہی اس بات پر سب سے زیادہ توجہ ہو گی کہ آخر کابل ایئر پورٹ کو دوبارہ کیسے کھولا جائے، جسے حالیہ دنوں میں کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ امریکا اور بعض دیگر مغربی ممالک کو اب بھی بہت سے افراد کو افغانستان سے نکالنا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں انسانی امداد کی فراہمی کو بھی تیز تر کرنا ہے۔
پنجشیر میں طالبان کی فتح کا دعوی
پیر کے روز ہی طالبان نے شمالی صوبے پنجشیر کو بھی فتح کرنے کا دعوی کر دیا تھا جہاں مخالف رہنما احمد مسعود کی مزاحمتی ملیشیا طالبان سے نبرد آزما تھی۔ اس حوالے سے طالبان نے آن لائن ایسی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں جس میں وادی پنجشیر کی سرکاری عمارتوں پر طالبان کو اپنا پرچم نصب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن مزاحمتی گروپ کے جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی دفاعی اعتبار سے اہم مقامات پر موجود ہیں اور ان کی جانب سے لڑائی جاری رہے گی۔ اس دوران قومی مزاحمتی محاذ کے رہنما احمد مسعود نے افغان شہریوں سے طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک صوتی پیغام میں احمد مسعود نے موجودہ صورت حال کی ذمہ داری یہ کہہ کر عالمی برادری پر ڈالی ہے کہ اسی نے طالبان کو یہاں تک پہنچنے کا جواز فراہم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''آپ جہاں کہیں بھی ہوں، اندر یا پھر باہر، میں آپ سے قومی سطح پر، اپنی عزت و احترام اور ملک کی آزادی و خوشحالی کے لیے، اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔''
کابل کے شمال میں واقع پنجشیر ملک کا ایک چھوٹا صوبہ ہے اور وہی ایک ایسا علاقہ تھا جس پر طالبان کنٹرول حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اس
کے لیے فریقین کے مابین بات چیت بھی شروع ہوئی تھی تاہم مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو اس علاقے میں بھیج دیا تھا۔
پنجشیر پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو ئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اپنی شکست کے پیش نظر مقامی رہنما احمد مسعود اور ملک کے سابق نائب صدر امراللہ صالح ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔
وادی پنجشیر ہر جانب سے اونچی پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ اور دو لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ علاقہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور رہا ہے۔ احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود نے بھی نوے کے عشرے میں اس علاقے میں طالبان کے خلاف کامیاب مزاحمت کی تھی۔ تاہم اس بار طالبان کی جنگی حکمت عملی پہلے کے مقابلے بالکل مختلف ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)