افغانستان: اکتیس ہزارہ یرغمالیوں میں سے اُنیس رہا
11 مئی 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یرغمال بنائے جانے والے افراد کا تعلق ہزارہ قبیلے سے ہے، جس کے زیادہ تر ارکان شیعہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اقلیت طالبان کی سنّی حکومت کے دور میں تعاقب کا نشانہ بنتی رہی تھی تاہم 2001ء میں امریکی سرکردگی میں افغانستان میں ہونے والی پیشقدمی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس کمیونٹی کے خلاف تشدد کے واقعات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔
فروری میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اکتیس مردوں کو یرغمال بنائے جانے کے واقعے کے بعد اس کمیونٹی کے ایسے خدشات زور پکڑ گئے تھے کہ غالباً طالبان باغیوں اور اسلام پسندوں کے ساتھ طویل عرصے سے جاری جنگ اب ایک نئی فرقہ وارانہ شکل نہ اختیار کر لے۔
فوری طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ آیا اِن اُنیس افراد کی رہائی کے لیے کوئی زرِ تاوان ادا کا گیا ہے یا اِنہیں قیدیوں کے تبادلے مییں چھوڑا گیا ہے۔ اسی طرح ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کے ان مردوں کو کس نے یرغمال بنایا تھا۔
مشرقی افغان صوبے غزنی کے ایک ضلعی گورنر ظفر شریف نے کہا، ’’ان لوگوں کی صحت اچھی ہے۔‘‘ یہ وہی ضلع ہے، جہاں اِن اُنیس افراد کو اس قبیلے کے اُن عمائدین کے حوالے کیا گیا، جو ایک عرصے سے ان کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔ ظفر شریف کے مطابق رہائی پانے والے ہزارہ مردوں کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کے ان افراد کو اس سال فروری میں جنوبی افغان صوبے زابل میں ایک بس سے اُتار کر یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تب عینی شاہدین کا کہنا یہ تھا کہ ان افراد کو اس بناء پر اغوا کیا گیا ہے کہ وہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد ازاں ان یرغمالیوں کو غزنی منتقل کر دیا گیا تھا۔
غزنی صوبے کے ایک ڈپٹی گورنر محمد علی احمدی نے بتایا، ’’اب ہم ان اُنیس افراد کو بحفاظت کابل منتقل کرنے پر کام کر رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد دیگر بارہ افراد کو بھی آزاد کروائیں۔‘‘ روئٹرز کے ساتھ بات کرنے والے کسی بھی افغان اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ کس قسم کی سودے بازی کے نتیجے میں ان اُنیس افراد کی رہائی ممکن ہوئی ہے۔
زابل میں یرغمال بنائے جانے کے اس واقعے کے بعد ممتاز ہزارہ لیڈر محمد محقق نے عسکریت پسندوں پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پُر جوش بیان بازی سے متاثر ہو کر اس طرح کی کارروائیاں کرنے اور خاص طور پر ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔
اگرچہ بہت سے طالبان کمانڈر باقاعدہ طور پر شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر چکے ہیں لیکن افغانستان میں اس تنظیم کی فوجی موجودگی کے شواہد بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔