افغانستان بھارت سے عسکری امداد طلب کر سکتا ہے، افغان سفیر
14 جولائی 2021افغانستان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ اس کی بات چیت ناکام ہو جاتی ہے تو ضرورت پڑنے پر وہ بھارت سے فوجی امداد طلب کر سکتا ہے۔ نئی دہلی میں افغان سفیر فرید ماموند زئی نے ایک مقامی انگریزی ٹی وی چینل سے بات چيت میں یہ تسلیم کیا کہ افغانستان میں اس وقت حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "اگر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ ہم بھارت سے عسکری امداد طلب کریں، آنے والے برسوں میں اور زیادہ فوجی امداد چاہیے ہوگی۔" تاہم ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس موقع پر وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ بھارتی فوجی افغانستان میں لڑائی کا حصہ بنیں۔ ماموندزئی کا کہنا تھا، "شاید اس مرحلے پر ہماری جنگ لڑنے کے لیے افغانستان میں بھارت کے فوجیوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔"
ان سے جب پوچھا گيا کہ ایسے وقت جب امریکا سمیت تمام بیرونی فورسز افغانستان سے نکل رہے ہیں تو پھر بھارت سے وہ کس نوعیت کی عسکری مدد چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ افغان فضائیہ کو بھارت کی مدد ضرورت ہو گی اور اس شعبے میں مزید مواقع تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
افغان سفارت کار کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان پائلٹس کو ٹریننگ کی ضرورت ہو گی اور بھارت اپنے ملک میں افغان فوجیوں کو بہتر تربیت فراہم کر سکتا ہے۔ سفیر کے مطابق، "بھارت نے ہمیں پہلے ہی سے تقریبا ایک درجن ہیلی کاپٹرز فراہم کر رکھے ہیں، امریکا نے بھی جو دیے ہیں وہ ہماری فوج کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔" ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی انڈیا افغان فورسز کو عسکری ساز و سامان فراہم کرتا رہا ہے۔
بھارتی سرمایہ کاری کی تعریف
افغان سفیر نے اس موقع پر بھارت کی تعریف بھی کی کہ، "افغان فوج کی تربیت کا انتظام کرنے کے ساتھ ہی ہمارے فوجیوں کو وظائف دے کر کافی مدد کی ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہر برس تقریبا ایک ہزار افغان طلبہ کو بھی اسکالر شپ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت نے متعدد دیگر تعمیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ ہماری پارلیمان کی نئی عمارت تعمیر کی، اور سلمی اور شہتوت جیسے بڑے ڈیم بھی تعمیر کیے ہیں۔" ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے انہیں مستقبل میں بھی بھارتی مدد کی توقع ہے۔
بھارت کی افغانستان کو عسکری امداد
یہ بات پہلے سے واضح ہے کہ بھارت افغانستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور اب تک اس نے تین ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ کی رقم صرف کر دی ہے۔ تاہم عام تاثر یہ رہا ہے کہ اس کی تمام تر کوششیں صرف سویلین مقاصد تک محدود تھیں۔
لیکن دہلی میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی بات چيت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت افغان حکومت کی عسکری سطح پر بھی مدد کرتا رہا ہے اور خود افغان سفیر نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ بھارت نے دیگر فوجی ساز و سامان کے ساتھ ساتھ اسے ہیلی کاپٹرز بھی مہیا کیے ہیں۔
افغانستان میں ابتر ہوتے حالات
افغان سفیر نے یہ بات بھی تسلیم کیا کہ اس وقت افغانستان میں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات بہت ہی خوفناک اور مشکل ہو چکے ہیں۔ "حکومتی فورسز اس وقت ملک کے 376 اضلاع میں سے تقریبا 150 میں طالبان کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔ اس میں سے کچھ پر طالبان قابض بھی ہو چکے ہیں۔
ماموندزئی نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ دس ہفتوں کے دوران تشدد میں تین ہزار 600 لوگوں کی ہلاکت کے علاوہ دو لاکھ سے بھی زیادہ افراد اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں۔ سفیر نے واضح کیا کہ عام افغان شہریوں میں یہ خوف ہے کہ افغانستان پھر سے نوے کے عشرے کی طرف لوٹ رہا ہے۔
افغان سفیر کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر نے وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں اپنے افغان ہم منصب سے ملاقات کی۔ دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں افغانستان کی صورت حال پر توجہ مرکوز کی گئی۔