افغانستان: معروف خاتون سماجی کارکن کا قتل
25 دسمبر 2020افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن فرشتہ کوہستانی کو جمعرات 24 دسمبر کو شمالی صوبہ کاپیسا میں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ وزارت داخلہ کے ترجمان طارق اریان نے اس بارے میں صحافیوں کو بتایا، ''صوبہ کاپیسا کے ضلع کوہستان میں ایک موٹر سائیکل پر سوار بندوق بردار نے فرشتہ کوہستانی کا قتل کیا ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے میں کوہستانی کے بھائی بھی زخمی ہوئے ہیں۔
صوبائی کؤنسل کی سابق رکن 29 سالہ فرشتہ کوہستانی افغانستان میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بیداری مہم بھی چلاتی رہی تھیں۔گزشتہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے سرکردہ رہنما عبداللہ عبداللہ کے لیے انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا اور خواتین کے حقوق کے مطالبے کے لیے کابل میں متعدد بار سول سوسائٹی کے کئی پروگراموں کا اہتمام بھی کیا تھا۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک ''دہشت گردانہ حملے'' میں ہلاک ہوئیں۔ اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں انہوں نے کوہستانی کو ایسی، ''بہادر اور بے خوف'' کارکن بتایا جو افغانستان کی سول اور سماجی زندگی میں پیش پیش رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا، ''اس طرح قتل کا سلسلہ نا قابل قبول ہے۔'' ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
افغانستان رہنے لائق جگہ نہیں ہے
افغانستان میں اسی ہفتے بدھ کے روز کابل میں ایک جمہوریت نواز کارکن کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے دو روز بعد ہی فرشتہ کوہستانی قتل کی جانے والی دوسری کارکن ہیں۔
قتل کی یہ وارداتیں حالیہ ہفتوں میں ہونے والے ان واقعات سے مماثلت رکھتی ہیں جس میں ممتاز افغان شہریوں کو دن دہاڑے ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے، جن میں سے متعدد افراد کو دارالحکومت کابل میں ہلاک کیا گیا۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والے ایک آزاد ادارے کے سربراہ محمد یوسف رشید کو کابل میں گھات لگا کر ایک حملے میں قتل کیا گیا تھا۔ اس سے چند روز قبل ہی معروف صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو غزنی میں ان کے گھر کے پاس ہی اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ پڑوس کی مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ انہیں بھی موٹر سائیل پر سوار نامعلوم افراد نے گولی مار دی تھی۔
اپنی موت سے چند روز قبل ہی فرشتہ کوہستانی نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ انہوں نے دھمکیاں ملنے کے بعد حکام سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ملک میں سماجی کارکنوں اور صحافیوں کے قتل کے حالیہ واقعات کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔
ماہ نومبر میں اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا تھا، ''افغانستان رہنے لائق جگہ نہیں ہے۔ امن کی کوئی امیدہی نہیں ہے۔ درزی سے کہہ دیجیے کہ وہ آپ کی (کفن کا) بھی ناپ لے لے، ہوسکتا ہے کل آپ کی باری ہو۔''
افغانستان میں امن کے قیام کے لیے طالبان قیادت اور حکومت کے درمیان گزشتہ تین ماہ سے بھی زیادہ مدت سے بات چیت جاری ہے تاہم اس کے باوجود تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور قتل کی ایسی وارداتیں اکثر ہوتی رہی ہیں۔
دوحہ میں ہونے والی اس بات چیت کا مقصد ملک میں برسوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے تاہم فی الوقت یہ بات چیت بھی جنوری تک کے لیے موخر کر دی گئی ہے اور ان کے دوبارہ شروع ہونے میں بھی مزید تاخیر کا خدشہ ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)