افغانستان سے جرمن فوج کا انخلا، پارلیمانی کمیٹی تفتیش کرے گی
8 جولائی 2022جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے اس معاملے کی جامع تفتیش اور حقائق کے تعین کی ذمے داری ایک پارلیمانی کمیٹی کو سونپنے کا فیصلہ جمعہ آٹھ جولائی کی صبح کیا۔ یہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی 12 منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔
یہ کمیٹی پتہ چلائے گی کہ افغانستان میں کئی برسوں تک تعیناتی کے بعد ہندوکش کی اس ریاست سے جرمن فوجی دستوں کی حتمی واپسی اور اس کے بعد شروع ہونے والے شہری انخلا کے عمل میں تب کیا کیا غلطیاں ہوئی تھیں اور ان سے جرمنی مستقبل کے لیے کیا سبق سیکھ سکتا ہے۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے اچھا وقت کوئی نہیں تھا، بائیڈن
بنڈس ٹاگ کی اس کمیٹی کا سربراہ جرمن چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان رالف اشٹیگنر کو بنایا گیا ہے۔
انہوں نے اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد کہا، ''ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم ممکنہ طور پر قصور وار افراد کی تلاش کریں۔ اس کے برعکس ہمارا فرض اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ وہ غلطیاں جو ظاہر ہے کی گئیں، انہیں مستقبل میں کبھی دہرایا نہ جائے۔‘‘
جرمن فوجی دستوں کی واپسی
جرمن حکومت نے افغانستان میں کئی برسوں سے تعینات وفاقی فوج کے دستے انہی دنوں کے دوران حتمی طور پر واپس بلا لیے تھے، جب گزشتہ برس موسم گرما میں افغانستان میں حالات ساری دنیا کو حیران کر دینے کی حد تک بدل گئے تھے اور قدامت پرست طالبان عسکریت پسند ایک بار پھر اقتدار میں آ گئے تھے۔
طالبان حکومت کے ایک سو ایام، کئی چیلنجز اور بے شمار مسائل
کیا افغان طالبان بے مقصدیت کا شکار ہو رہے ہیں؟
اس بارے میں چھان بین سے متعلق پارلیمانی قرارداد کی جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے علاوہ کرسچین ڈیموکریٹ اپوزیشن کی طرف سے بھی حمایت کی گئی۔
اس کمیٹی کی تشکیل اور اس کو سونپے گئے اختیارات کی صرف دو جماعتوں نے مخالفت کی۔ ان میں سے ایک تو بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے تھی اور دوسری انتہائی دائیں بازو کی اسلام اور تارکین وطن کی مخالف عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی۔ ان دونوں جماعتوں کا کہنا تھا کہ صرف جلد بازی میں فوجی انخلا کے بجائے افغانستان میں جرمن فوجی مشن کے پورے عرصے کی چھان بین کی جانا چاہیے۔
امریکا کے اعلیٰ فوجی اہلکاروں کا افغانستان میں ناکامی کا اعتراف
جرمن پارلیمان کی یہ کمیٹی افغانستان سے متعلق اپنی چھان بین کو ایک خاص عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات تک ہی محدود رکھے گی۔ یہ عرصہ 29 فروری 2020ء کے روز دوحہ میں امریکی حکومت اور افغان طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے دن سے لے کر 31 ستمبر 2021ء تک پھیلا ہوا ہو گا، جب افغانستان سے آخری امریکی فوجی دستے کی حتمی واپسی کو بھی ٹھیک ایک مہینہ ہو گیا تھا۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)