افغانستان سے دو جرمن شہریوں کے اغوا کا خدشہ
24 اگست 2011برلن میں پریس کانفرنس کے موقع پر ویسٹرویلے کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں ان دو جرمن باشندوں کے لاپتہ ہوجانے کی تصدیق تو کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی ان کے اغوا ہوجانے کے امکان کو بھی خارج قرار نہیں دیتے۔ اس سے قبل افغانستان کے مشرقی صوبے پروان میں انتظامیہ نے جرمن باشندوں کے لاپتہ ہوجانے کی خبر عام کی تھی۔ پروان کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ دو جرمن شہری شمالی ضلع سالنگ میں گھوم رہے تھے۔ پروان کے گورنر کی ترجمان روشنا خالد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’ان کا ڈرائیور قومی سلامتی سے متعلق دفتر میں اکیلا پہنچا اور بتایا کہ جرمن باشندے واپس نہیں لوٹے۔‘ روشنا خالد کے مطابق کابل حکومت نے علاقے میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سرچ آپریشن کیا اور سکیورٹی فورسز کے دستے بھی بھیجے، تاہم جرمن باشندوں کا سراغ نہیں مل سکا۔
ان کے مطابق سالنگ میں پہاڑی آبادی سے درخواست کی گئی ہے کہ ان جرمن باشندوں کی تلاش میں فورسز کا ساتھ دیں۔ افغانستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اغواء برائے تاوان کی کئی وارداتیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ان وارداتوں میں مالدار گھرانوں کے افراد اور غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرز کی وارداتوں میں طالبان عسکریت پسندوں سے ملے ہوئے افراد بھی ملوث تصور کیے جاتے ہیں، جو ان کارروائیوں سے مالی سہارے کے ساتھ ساتھ دیگر اہداف بھی حاصل کرتے ہیں۔
اس واقعے سے متعلق البتہ فوری طور پر طالبان یا کسی دوسرے گروہ کی جانب سے کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ وہ ان دو جرمن باشندوں کے اغواء سے متعلق فی الحال کوئی معلومات نہیں رکھتے۔
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویلے نے ممکنہ طور پر اغوا شدہ ان جرمن شہریوں کی مزید شناخت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ جرمنی کے لگ بھگ پانچ ہزار فوجی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے تحت افغانستان میں سلامتی سے متعلق خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کے تعاون سے اس شورش زدہ ملک میں تعمیر نو اور ترقی کے بھی متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف توقیر