افغانستان سے سوویت فوجی انخلاء کو دو عشرے ہو گئے
15 فروری 200915فروری 1989۔ سوویت ٹیلی ویژن آخری فوجی دستوں کے انخلا کی کارروائی دکھا رہا ہے جو اس وقت افغانستان کے سرحدی پل سے گزر کر سوویت یونین کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر جانب سرخ جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ سپاہی فوجی گاڑیوں میں بیٹھے ٹیلی ویژن کیمروں کو دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ یوکرائن سے تعلق رکنے والے فوجی افسر Kuprijenko نے بتایا: ’’میں آخری بکتر بند گاڑی میں 40 ویں آرمی بریگیڈ کے کمانڈر، جنرل بورس گروموف کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ اچھل کر گاڑی سے باہر نکلے اوردور کھڑے صحافیوں کے پاس پہنچے اوراپنے مشہورانٹرویو میں انہیں بتایا:’’ میرے پیچھے اب کوئی سوویت فوجی یا افسرنہیں رہا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں ہماری 9 سالہ موجودگی ختم ہو گئی ہے‘‘۔
طویل جنگ: سوویت یونین کی یہ سب سے طویل جنگ تھی۔ ماسکو کا کہنا تھا کہ افغانستان کی کیمونسٹ قیادت نے اسلام پسند اپوزیشن کے خلاف مدد کی درخواست کی تھی۔ جس کے جواب میں 25 دسمبر1979 کو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں۔
سابق سوویت فوجی مشیر ابلاسوف کے مطابق، ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اس علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہا تھا۔ چنانچہ سوویت یونین نے اپنی جنوبی سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری سمجھا۔
انہوں نے کہا:’’ہمارا کام تھا کابل میں ایک حکومت قائم کرنا۔ اسے مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا اور پھر اپنے فوجی واپس نکال لانا۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان پر قبضہ کرکے لمبے عرصے تک وہاں رہا جائے‘‘۔
تاہم یہ منصوبہ پورا نہ ہو سکا۔ ماسکو کی مکمل پشت پناہی کے باوجود کابل کی کیمونسٹ حکومت مجاہدین کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔
ماسکو میں فوجی انخلا کا فیصلہ 1988 میں کیا گیا۔ اس وقت کے سوویت سربراہ میخائیل گرباچوف مغربی ملکوں کے ساتھ محاذ آرائی ختم کر کے اندرون ملک اصلاحات لانا چاہتے تھے۔
اسی سال اپریل میں جنیوا میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان بات چیت کے بعد یہ طے پایا کہ 9 ماہ کے اندر اندر سوویت فوجی دستے افغانستان سے واپس چلے جائیں گے۔ با لآخر 15 فروری1989 کو آخری سوویت فوجیوں نے افغانستان خالی کر دیا۔
اس جنگ میں 15000 سے زائد سوویت فوجی ہلاک ہوئے جبکہ جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے افغانیوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی۔