افغانستان سے پہلے امریکی فوجی دستے کی واپسی
15 جولائی 2011افغانستان میں متعین امریکی فوج کا مکمل انخلا سن 2014 میں مکمل کیا جانا ہے لیکن اس عمل کی ابتداء ہو گئی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے جون میں اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ اگلی موسم گرما کے ختم ہونے سے قبل کم از کم 33 ہزار فوجی افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں گے۔ ان میں سے دس ہزار فوجی رواں برس واپس امریکہ روانہ ہوں گے۔ اس تعداد میں سے 650 فوجیوں پر مشتمل پہلا دستہ روانہ کردیا گیا ہے۔ اس کی تصدیق آج جمعہ کے روز کی گئی جب کہ روانگی کا عمل دو روز قبل مکمل کیا گیا تھا۔ اس مناسبت سے تصدیق بیان امریکی فوجی پریس کے میجر مائیکل وون کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
افغانستان سے جو 650 فوجی واپس امریکہ روانہ ہوئے ہیں، ان کی تعیناتی دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع صوبے پروان میں تھی۔بدھ کے روز روانہ ہونے والے فوجیوں کی جگہ مزید یا نئے فوجی امریکہ سے تعینات نہیں کیے جائیں گے۔ ان کی جگہ افغانستان میں موجود امریکی فوجی متعین کیے جائیں گے۔ اس ماہ کے دوران دو امریکی فوجی یونٹوں کے کل آٹھ سو فوجیوں کی امریکہ واپسی طے ہے۔
اسی پلان کے تحت جولائی کے ماہ کے دوران کابل میں متعین امریکی یونٹ کے فوجی بھی واپس روانہ ہو جائیں گے اور سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی پولیس و فوج کے سپرد کردی جائے گی۔ شورش زدہ افغان صوبے ہلمند میں تعینات امریکی میرینز یا کمانڈوز کی ایک بٹالین بھی رواں برس نومبر اور دسمبر میں واپس روانہ ہو جائے گی۔
یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی واپسی کی رفتار امریکہ کے اندر سردست تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ امریکہ میں لبرل خیالات کے حامی سیاستدان اور پریشر گروپس اس میں مزید تیزی کے خواہشمند ہیں جب کہ ری پبلکن پارٹی کے لیڈروں کا خیال ہے کہ یہ واپسی بہت تیز ہے۔ امریکی فوج کے صدر دفتر پینٹاگون کے حکام میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے پیش کردہ رائے کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ افغانستان میں تعینات کمانڈر جنرل پیٹریاس اور ایڈمرل مائیک مولن بھی خیال رکھتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اوباما حکومت کا پلان خاصا تیز ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: حماد کیانی