طالبان کا فتح کا دعوی اور نئی حکومت کے اعلان کی توقع
16 اگست 2021افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے جنگ ختم کرنے کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ نئی حکومت کس شکل اور طرز کی ہو گی اس کی وضاحت جلد ہی کر دی جائے گی۔ طالبان کے ایک ترجمان محمد نعیم نے الجزیرہ ٹی وی سے بات چیت میں کہا، ''ہم جو چاہتے تھے ہم نے اسے حاصل کر لیا ہے اور وہ ہے ہمارے ملک اور عوام کی آزادی۔''
خبر رساں ادارے روئٹرز نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ''آج افغانستان کے عوام اور مجاہدین کے لیے ایک عظیم دن ہے۔ انہیں بیس برس کی اپنی کوششوں اور قربانیوں کا ثمرہ حاصل ہوا ہے۔ خدا کا شکر ہے ملک میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔''
محمد نعیم کا مزید کہنا تھا، ''ہم کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری سرزمین کسی دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرے اور ہم کسی کو نقصان پہنچانا بھی نہیں چاہتے۔''
اس سے قبل اتوار کے روز جب طالبان کابل میں داخل ہونا شروع ہوئے تو افغان صدر اشرف غنی یہ کہہ کر ملک چھوڑ کر پڑوسی ملک تاجکستان چلے گئے کہ وہ خون خرابہ نہیں چاہتے تھے۔ تاہم ملک میں اب بھی افرا تفری کا ماحول ہے۔
کابل میں محکمہ صحت کے ایک بیان کے مطابق بعض جھڑپوں میں کچھ افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے اب تک تقریبا ًساٹھ افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔ تاہم توقع کے بر عکس کابل میں کوئی بہت زیادہ خونریزی نہیں ہوئی اور طالبان نے بڑی آسانی سے صدارتی محل کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
جرمن شہریوں کا انخلا شروع
کابل میں موجود جرمن سفارت کاروں اور دیگر شہریوں کا انخلا شروع کر دیا گیا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی کے مطابق اس سلسلے میں پیر کی علی الصبح امریکی طیارے کے ذریعہ کابل سے اس کا پہلا گروپ قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ گیا ہے۔ اس مذکورہ فلائٹ میں سوئٹزر لینڈ کے بھی چار سفارت کار سوار تھے۔
جرمن سفارت خانے کا عملہ اتوار کو کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچا تھا تاہم چونکہ جرمنی کی فضائیہ کے جہاز پرواز کے لیے فوری طور پر تیار نہیں تھے اس لیے ان سفارت کاروں کو امریکی طیارے کے ذریعے دوحہ پہنچایا گیا۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں جرمن سفارت خانے کے اسٹاف، جرمن شہریوں اور جو افغان جرمنی کے لیے کام کرتے رہے ہیں ان کے انخلا کے لیے جرمن فضائیہ جلد ہی ایک آپریشن شروع کرنے والی ہے۔
امریکی سفارتی عملے کا انخلا تقریباً مکمل
اتوار کی دیر رات امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ کابل سے اس نے اپنے سفارتی عملے کے تمام افراد کو محفوظ طریقے سے نکال لیا ہے اور وہ حامد کرزئی ایئر پورٹ میں موجود ہیں جہاں سے انہیں امریکا لایا جا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حامد کرزئی انٹر نیشنل ایئرپورٹ کی سکیورٹی اس وقت تک امریکی فورسز کے ہاتھ میں ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے پیر کے روز ایک سینیئر امریکی افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ افغانستان میں موجود مغربی ممالک کے بیشتر سفارت کار کابل چھوڑ چکے ہیں۔
اس افسر کے مطابق، ''میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے بیشتر سفارت کار اب کابل سے نکل چکے ہیں '' اس سے قبل اتوار کو دیکھا گیا کہ طالبان کے کابل میں داخلے ہونے کے بعد سے ہی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سفارتکاروں کو ان کے دفتروں سے براہ راست کابل کے ایئر پورٹ تک پہنچایا جا رہا تھا۔
جرمنی اور دیگر ممالک کی اپیل
جرمنی اور یورپی یونین سمیت دنیا کے تقریبا ًساٹھ ممالک نے 16 اگست پیر کے روز اپنے ایک مشترکہ بیان میں افغانستان کے تمام حلقوں سے اپیل کیا ہے کہ تیزی سے بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورت حال کے درمیان غیر ملکی شہریوں اور افغانوں کو ملک سے، ''محفوظ اور منظم طریقے سے نکلنے'' کی اجازت دی جانی چاہیے۔''
مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے، ''سڑکیں، ہوائی اڈے اور سرحدی راہداریاں کھلی رہنی چاہیے اور سکون قائم رہنا چاہیے۔'' مشترکہ بیان میں کہا گیا، ''افغانستان کے لوگ پر امن، محفوظ اور ایک با وقار زندگی گزارنے کے مستحق ہیں۔ ہم عالمی برادری کے لوگ اس میں ان کی مدد کے لیے بھی تیار ہیں۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)