افغانستان: طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملے جاری
23 جولائی 2021جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے 22 جولائی جمعرات کے روز کہا کہ برلن جرمن فوج کے لیے کام کرنے والے ان افغان شہریوں کو مزید مالی امداد فراہم کرے گا جو طالبان سے بچنے کے لیے جرمنی منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے کل ایک بار پھر سے کابینہ میں اس کے عملی حل کے بارے میں بات کی ہے۔''
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جن افراد نے بھی 2013 سے جرمن فوج کے لیے کام کیا ہے ان سب کو، ''جرمنی آنے کا موقع ملنا چاہیے۔'' انہوں نے ایسے افراد کے لیے ایک چارٹرڈ طیارے کے انتظام پر غور کرنے کی بات کہتے ہوئے کہا، ''کسی کو بھی پرواز لینے سے نہیں روکا جانا چاہیے کیونکہ وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔''
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم بات ہے کہ جن لوگوں نے ہماری اتنی زیادہ مدد کی ہم بھی ان کا ساتھ دیں۔ جرمنی نے افغانستان سے اپنا فوجی انخلا مکمل کر لیا ہے اور اس طرح سے افغانستان میں اس کے بیس سالہ مشن کا بھی ختم ہو گیا ہے۔ لیکن جن افغان شہریوں نے بیرونی افواج کی مدد کی تھی اب وہ طالبان کے نشانے پر ہو سکتے ہیں اس لیے ایسے ہزاروں افغانوں نے مغربی ممالک سے پناہ دینے کی بات کہی تھی جس پر کئی ممالک نے غور کیا ہے اور اس پر عمل بھی جاری ہے۔ جرمنی اور امریکا نے ایسے تمام افراد کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
امریکی فضائی کارروائیاں
ادھر امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی جمعرات کو بتایا کہ اس نے حالیہ دنوں میں طالبان کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے افغان فورسز کی مدد کے طور پر طالبان کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ انکشاف ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کا انخلا تقریبا مکمل ہونے کو ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ افغان نیشنل ڈیفنس فورسز کی، '' مدد کے لیے گزشتہ کئی روز کے دوران ہم نے فضائی حملوں کے ذریعے کارروائی کی ہے۔ ہم افغان حکومتی فورسز کی حمایت میں فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔''
جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے ان فضائی حملوں کی منظوری دی تھی۔ تاہم کربی نے کہا کہ وہ ان فضائی حملوں سے متعلق مزید تفصیلات نہیں فراہم کر سکتے۔
اس سلسلے میں انہوں نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے گزشتہ روز کے بیان پر وزر دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا، ''افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت کو آگے بڑھانے میں مدد کے لیے پر عزم ہے۔''
امریکا افغانستان میں حکومتی فورسز کی فضائی حملوں سے مدد کرتا رہا ہے تاہم ایک ایسے وقت جب امریکی فوجی انخلا کے ساتھ طالبان کی پیش قدمی بھی جاری ہے، پہلی بار اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ امریکا ابھی بھی طالبان کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ روز ہی امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں بظاہر ''اسٹریٹیجک برتری'' حاصل کر لی ہے۔ امریکی جنرل کے بقول طالبان نے اہم شہروں پر اپنا دباو بڑھا دیا ہے اور آنے والے ہفتوں میں فیصلہ کن معرکہ کے لیے اسٹیج تیار ہو گیا ہے۔
جنرل مارک ملی کا کہنا تھا، ”اب قوت ارادی اور افغان قیادت، افغان عوام، افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت کا امتحان ہونے والا ہے۔
طالبان کا اشرف غنی کو ہٹانے کا مطالبہ
اس دوران طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں تاہم جب تک صدر اشرف غنی کو ہٹایا نہیں جاتا اس وقت تک کابل میں امن نہیں ہو سکتا ہے۔ ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا، ''میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ طالبان اقتدار کی طاقت پر کوئی اجارہ داری نہیں چاہتے ہیں۔''
خبر رساں ادارے اے پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں جن حکومتوں نے بھی افغانستان میں اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش وہ کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور، ''ہم اس طرح کے فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے ہیں۔''
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اشرف غنی کی حکومت کو بھی قطعی برداشت نہیں کریں گے جو جنگ کا ہوا کھڑا کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ شاہین
نے کہا کہ حکومت بار بار جنگ بندی کی بات کرتی ہے لیکن اشرف غنی کے رہتے ہوئے جنگ بندی کا مطلب طالبان کو سرنگوں کرنا ہے۔ ''وہ مصالحت نہیں سرنڈر چاہتے ہیں۔''
ان کا کہنا تھا، '' کسی بھی جنگ بندی سے پہلے ایک ایسی نئی حکومت کے قیام کا معاہدہ ہونا چاہیے جو ہمیں اور تمام افغان شہریوں کو تسلیم ہو، پھر کوئی جنگ نہیں ہو گی۔''