افغانستان: طالبان کے ساتھ امن بات چیت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
5 اکتوبر 2011افغانستان میں طالبان کےساتھ مذاکراتی عمل کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت اور طالبان کے مابین رابطہ کاروں کے اغوا، انہیں غدار قرار دیتے ہوئے قتل اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات جاری ہیں۔ اس وجہ سے افغانستان کے سرکاری حلقوں میں مذاکراتی عمل کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال بڑھتی جاری ہے۔ بہت سے رہنما بات چیت کو جاری رکھنے کے حوالے سے اپنے تعاون کی یقین دہانی توکروا رہے ہیں لیکن اس بات چیت کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اس بارےمیں بہت کم ہی تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔
افغان امن کونسل کے سینئر نائب سربراہ عبدالحکیم مجاھد نے کہا کہ اس کونسل کے سربراہ اور سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل سے ناامیدی اور افراتفری کی سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے: ’’اس کے باوجود ہمیں امن عمل کو جاری رکھنا ہو گا۔‘‘ عبدالحکیم مجاھد طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان اور بین الاقوامی دستے طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں اور اب بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہمیں امن کونسل کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیں بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے رہنما اصول بنانے ہوں گے اور ان پر عمل پیرا ہونا ہو گا‘‘
امن کونسل نےگزشتہ برس ہی افغان صدر حامدکرزئی کو یہ پیغام پہنچا دیا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں بہت معمولی سی ہی پیش رفت ہوئی ہے۔ امن کونسل کے سربراہ اور سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کو تقریباً دو ہفتے قبل کابل میں ان کی رہائش گاہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ طالبان نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم افغان حکام نے پاکستان کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
گزشتہ مہینوں کے دوران افغانستان میں طالبان کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں نہ صرف تیزی آ گئی ہے بلکہ اب وہ اپنے مخالفین کو ہدف بنا کر ایک منظم انداز میں قتل بھی کر رہے ہیں۔ رواں برس مارچ سے اب تک پولیس کے تین اعلیٰ افسران، ایک میئر، صدر کے ایک مشیر، کرزئی کے ایک بھائی اور امن کونسل کے سربراہ کو قتل کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی