افغانستان: طلبہ کا احتجاج، اوباما مردہ باد کے نعرے
30 دسمبر 2009افغانستان میں آئے دن آئی سیف دستوں کے آپریشنز میں شہریوں کی ہلاکت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی اور غیر ملکی فوجیوں کے مابین اس معاملے پر کئی مرتبہ کشیدگی بھی پیدا ہو چکی ہے۔
گزشتہ ویک اینڈ پرکنٹرمیں بین الاقوامی آئی سیف دستوں کے ایک آپریشن میں دس شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر اسکول کے بچے تھے۔ اِس واقعے پراحتجاج کرتے ہوئے آج افغان صوبے ننگرہارکے دارالحکومت جلال آباد میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے امریکی صدر باراک اوباما کے خلاف نعرے بازی کی اوران کا پتلا جلایا۔ مظاہرین نے ’’اوباما مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ احتجاج میں شامل طلبہ کے ایک نمائندے سیف اللہ امین زئی نے کہا کہ افغان حکومت کو اس طرح کے آپریشنز کو روکنا ہو گا اور اس بارے میں مؤثر منصوبہ بندی کرنا ہو گی، ورنہ طلبہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ مظاہرین امریکہ کے ساتھ ساتھ تمام بین الاقوامی دستوں کے خلاف بھی نعرے بازی کر رہے تھے۔ اس موقع پرامریکی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔ امین زئی نے مزید بتایا کہ یہ احتجاج افغانستان میں موجود تمام غیر ملکی قوتوں کے خلاف ہےکیونکہ یہ لوگ جمہوریت کے فروغ کا بہانہ بنا کر، مذہبی اسکالرز اور اسکول کے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔
طلبہ کے نمائندے کے مطابق کنڑمیں طلبہ کی ہلاکت کے خلاف دارالحکومت کابل میں بھی اسی طرح کا ایک احتجاج کیا جائے گا، جو غیر ملکی افواج سے نفرت کا اظہار ہوگا۔ اِس نمائندے نے کہا، امریکی اور نیٹو فوج سے طلبہ کی صرف ایک ہی درخواست ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں تاکہ افغان سیاسی طور پر خود مختار ہو سکے۔ اِسی دوران افغان صدر حامد کرزئی نے بھی شہریوں کے ہلاکت کی پُر زور مذمت کی ہے۔ دوسری جانب نیٹو اورامریکی دستوں کی جانب سے کنڑ میں عام شہریوں کی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد کا موقف ہے کہ کنڑ میں جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، وہاں نیٹو کی کوئی کارروائی جاری نہیں تھی اور امریکی دستے اپنے تئیں وہاں آپریشن کر رہے ہیں۔ اِس واقعے کے اصل حقائق جانے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ کمیشن کے سربراہ اسد اللہ وفا نے علاقے کا دورہ کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے دوران افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں میں تقریباً گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سال اب تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد دو ہزارسے تجاوز کر چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر شہری ہلاکتیں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں ہوتی ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ شدت پسند اِس کی ذمہ داری قبول کریں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت:امجد علی