’افغانستان: قدرتی وسائل پر طالبان چھاتے جا رہے ہیں‘
12 فروری 2015اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ افغان انتہا پسند طالبان کی مالی معاونت میں بڑے جرائم پیشہ کاروباری اداروں کا عمل دخل روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ان بڑے انٹرپرائزز میں ہیروئن لیبارٹریاں، قیمتی پتھر روبی اور زمرد کی غیر قانونی کانیں اور اغوا برائے تاوان بھی شامل ہیں۔
سلامتی کونسل کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامل طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو مشکل تر بنا رہے ہیں مزید یہ کہ طالبان کے دیگر جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے ساتھ ادغام کے بارے میں اس رپورٹ میں جو معلومات شامل ہیں وہ اس ادغام کے نئے پیمانے اور گہرائی کا پتہ دے رہی ہیں۔ ان نیٹ ورکس میں وہ بھی شامل ہیں جو براہ راست ماربل کی کانوں، منشیات کی پیداوار اور اس کی برآمداد پر ٹیکس اور تاوان کی رقوم وصول کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مختلف اقسام کی مالی امداد، جن میں غیر ملکی ڈونیشن بھی شامل ہے، کی مدد سے افغان طالبان 13 سالہ امریکی جنگ میں بچنے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔
یہ رپورٹ منگل کو دیر گئے منظر عام پر آئی ہے اور اس میں سلامتی کونسل کو سینکشنس یا پابندیوں سے متعلق صلاح و مشورہ دینے والے ماہرین کے ایک پینل نے کہا ہے کہ، " یہ بڑے انٹرپرائزرز گوڈ فادر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کے اس کردار میں روز بروز شدت اور تیزی پیدا ہو رہی ہے۔
2014 ء میں افعانستان سے غیر ملکی فوج کے ایک بڑے حصے کے انخلاء کے وقت طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ماضی کے مقابلے میں گزشتہ برس افغانستان میں سب سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئیں۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما اب نئے افغان صدر اشرف غنی کی اُس درخواست پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں جس میں غنی نے افغانستان متعینہ باقی ماندہ امریکی فوج کے انخلاء کے عمل کو سست رفتار کر دینے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی افغان صدر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے مختلف چینلز بھی کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے طالبان کی مبینہ مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے پر زور دیا ہے۔ ساتھ ہی متنبہ کیا گیا ہے کہ منافع بخش غیر قانونی کاروبار کرنے والے جنگجو اپنے لیڈروں کی طرف سے امن بات چیت کی کال کا کوئی نوٹس نہیں لیں گے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ، " مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث طالبان اراکین کابل حکومت اور چوٹی کے طالبان لیڈروں کے مابین ممکنہ مصالحت سے کسی قسم کا سیاسی اور مالی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے"۔
ماہرین کے پینل نے مزید کہا ہے کہ ، " قدرتی وسائل کے شعبے میں طالبان کی مداخلت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس سیکٹر میں بھتہ خوری کے واقعات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔"