افغان فائلز: تيرہ آسٹریلوی فوجیوں کی برطرفی کا امکان
27 نومبر 2020آسٹریلوی فوج کے سربراہ نے گزشتہ ہفتے اس بات کا اعتراف کیا تھاکہ انيس آسٹریلوی فوجیوں نے افغانستان میں تعیناتی کے دوران انتاليس غیر مسلح افغان قیدیوں اور شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ انسپکٹر جنرل آف ڈیفنس کی طرف سے مقرر کردہ ایک جج کی رپورٹ میں ان فوجیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی تھی تاہم ان موجودہ اور سابقہ فوجیوں کے خلاف ممکنہ کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد آسٹریلوی فوج پر کارروائی کے ليے دباؤ بڑھ گیا تھا، جس کے بعد آسٹریلوی آرمی کے سربراہ لفٹيننٹ جنرل رک برّ نے کہا کہ موجودہ 13 فوجیوں کے خلاف نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں اور انہيں برطرف کیا جاسکتا ہے۔
جنرل برّ نے تاہم ان 13 فوجیوں کی نشاندہی نہیں کی۔ لیکن انہوں نے واضح کيا کہ یہ ان 19موجودہ اور سابقہ فوجیوں میں شامل نہیں، جنہیں جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن 13 فوجیوں کو برطرفی کا سامنا ہے، انہیں نوٹس کا جواب دینے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزيد کہا، ”افغانستان انکوائری کے سلسلے میں اس وقت 13 افراد کو انتظامی کارروائی کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ہم اس تفتيش کے نتائج سے سبق حاصل کریں گے اور ایک مضبوط، زیادہ باصلاحیت اور موثر فوج کے طور پر ابھریں گے۔"
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی رپورٹ کے بعد ملک کے سینئر ترین فوجی افسر نے افغانستان سے معافی بھی مانگی تھی۔
آسٹریلوی فوج کے اعلی عہدیدار جنرل آنگس کیمبل نے کہا تھا، ''میں آسٹریلیا کی دفاعی فورسز کی طرف سے افغان عوام کے ساتھ ہونے والی کسی بھی غلطی کے لیے خلوص کے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے پختہ شواہد پائے گئے ہیں کہ آسٹریلوی فوج کے خصوصی دستوں کے 25 فوجی افغان قیدیوں، کسانوں اور دیگر نہتے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث تھے۔ شہریوں کو ہلاک کرنے کے ایسے 23 واقعات کے بھی پختہ شواہد موجود ہیں جن میں کم از کم 39 عام شہری مارے گئے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ 2009 ء میں شروع ہوا لیکن زیادہ تر افراد کو 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہلاک کیا گیا۔ ایسے بھی کئی واقعات کا انکشاف ہوا ہے کہ فوجیوں نے پہلی بار کسی کو ہلاک کرنے کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو ہی گولی مار دی اور پھر لڑائی میں ہلاک کرنے کے جعلی ثبوت کا انتظام کر لیا۔
انکوائری کے مطابق ہلاکتوں کے ان واقعات میں کوئی بھی ایک واقعہ ایسا نہیں تھا جو لڑائی کے دوران پیش آیا ہو، یا پھر حالات ایسے رہے ہوں جہاں ان فوجیوں سے ایسا غلطی سے ہو گیا ہو۔ رپورٹ میں اس حوالے سے 19 افراد سے قتل جیسے مجرمانہ جرائم میں ملوث ہونے کے سلسلے میں مزید پوچھ گچھ کی سفارش کی گئی تھی۔
انکوائری کمیشن نے 20 ہزار سے زائد دستاویزات اور 25 ہزار سے زائد تصویروں کی جانچ پڑتال کی اور 423 گواہوں سے جرح کی۔
امريکا ميں سن 2001 میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جب امریکا نے سن 2002 میں افغانستان پر حملہ کیا، تو اتحادی کے طور پر آسٹریلیا نے بھی افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کیے تھے۔ افغانستان میں کُل 39000 آسٹریلوی فوجیوں نے خدمات انجام دیں جن میں سے 41 مارے گئے تھے۔
افغان فائلز
جنگی جرائم سے متعلق آسٹریلوی فوج کی خفیہ دستاویزات 'افغان فائلز‘ کسی طرح لیک ہو گئی تھیں، جنہیں بعد میں آسٹریلیا کے سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی نے نشر کر دیا تھا۔ اسی سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ آسٹریلوی فوج نے افغانستان میں نہتے عام شہریوں اور بچوں کو ہلاک کیا۔
اس پر پہلے آسٹریلیا کی پولیس نے ان صحافیوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی جنہوں نے یہ خفیہ دستاویزات حاصل کی تھیں لیکن بعد میں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
اس سے قبل آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے اپنی افواج کا مجموعی طور پر دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں فوجی اہلکار مطلوبہ 'توقعات اور معیار پر پورے نہیں اترے‘۔ اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ج ا / ع س (روئٹرز)