افغانستان میں بیش قیمت معدنیات، مختلف ممالک کی امیدیں
17 جون 2010افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لئے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہو جائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کر رہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لئے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔
دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے علاوہ بھارت بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کی توقع کر رہا ہے۔ افغانستان کی تعمیر نو میں شامل بھارت اس جنگ زدہ ریاست کی مدد کرنے والا سب سے بڑا علاقائی ملک بھی ہے۔ بھارت کے سرکاری پریس بیورو کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے بھارت کو باقاعدہ طور پر مدعو کیا ہے، خاص طور پر لوہے، تانبے، سونے اور کوئلے کی کان کنی کے شعبوں میں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وسائل کی تلاش میں کوشاں بھارت افغانستان میں ان بیش قیمت معدنیات، جن میں لیتھیم بھی شامل ہے، کی کان کنی کے موقع کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا۔ لیتھیم روز مرہ کے استعمال کے لئے تیار کی جانے والی اکثر مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ نئی دہلی میں موجود بھارت کے ایک سابق سفارت کار سنتوش کمار کا اس سلسلے میں کہنا ہے، " بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لہٰذا مختلف طرح کی معدنیات کی ہماری ضروریات میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں مثال کے طور پر فضائی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نئی معدنیات اور دھاتوں کی نہ صرف ضرورت پڑتی ہے بلکہ ان دھاتوں کے استعمال کے حوالے سے بھی اختراعات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ چونکہ ریئر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لئے یہ ہمیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اگر کوئی ایسی دریافت ہوتی ہے تو وہ ہمارے لئے بہت زیادہ اہم ہے۔"
تاہم سنتوش کمار کے مطابق اس میدان میں مصروف عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں، " ان کے لئے دو مسائل ہیں۔ پہلا سیکیورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ذرائع رسد کا ہے، چونکہ یہ معدنیات دور افتادہ علاقوں میں دریافت ہوئی ہیں۔"
اسی برس کے شروع میں کابل میں ایک حملے کے دوران سات بھارتیوں کی ہلاکت کے بعد نئی دہلی اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے اکثر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
بہت سے امریکی مبصرین کا بھی یہی خیال ہے کہ کمزور انفراسٹرکچر، بدعنوانی اور سیکیورٹی مسائل ان بیش قیمت معدنیات کو نکالنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ طالبان یہ حقیقت جاننے کے بعد کہ افغانستان اب ایک سونے کی چڑیا بن چکا ہے، اپنے حملوں میں اضافہ کر دیں گے۔
تاہم ان قدرتی وسائل کی مالیت کے پیش نظر، امریکہ، چین اور بھارت سمیت شاید کوئی بھی ملک یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہو جائے گا۔ تاہم کیا افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان بھی اس سلسلے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے یا کوئی کردار ادا کرسکتا ہے، اس سلسلے میں ایک پاکستانی ماہر معاشیات شاہد کاردار کا خیال ہے کہ اس سارے عمل کے دوران پاکستان کی زیادہ دلچسپی سہولتوں کی فراہمی یعنی لاجسٹک سپورٹ میں ہوگی، " میرا نہیں خیال کہ ہم بڑی سرمایہ کاری کرنے کی حالت میں ہیں۔ تاہم اس سارے اہم عمل کے دوران ٹرانسپورٹ سمیت دیگر ذرائع رسل اور افرادی قوت بہم پہنچانے کے حوالے سے ہم یقیناﹰ چین اور امریکہ سے بھی زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔"
کاردار کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں بیش قیمت معدنیات نکالنے کے عمل کے دوران پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں گے، جو کہ دوسری صورت میں عام طور پر طالبان میں شامل ہو جاتے ہیں۔
رپورٹ : افسر اعوان / دِشا اُپل
ادارت : مقبول ملک