افغانستان میں جرمن فوج کا کردار قابل تحسین ہے، میک کرسٹل
21 اپریل 2010جنرل میک کرسٹل کے اس دورے کا مقصد جرمن حکام کے ساتھ جرمنی کے افغانستان کے موجودہ مینڈیٹ میں توسیع کے امکانات پر بات چیت کرنا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان میں متعدد جرمن فوجیوں کی ہلاکت سے ، جرمن عوام اور سیاسی حلقوں میں ہندو کُش میں جرمن فوج کی تعیناتی کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
جنرل اسٹینلی میک کرسٹل کو بخوبی اندازہ ہے کہ جنگ میں کیسا لگتا ہے اور اس کے دوران کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کی Elite Military Unit سے تربیت حاصل کی ہے اور یہ 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران سعودی عرب میں متعینہ اسپیشل فورسز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 55 سالہ جنرل اسٹینلی میک کرسٹل 2008 ء تک ’جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ‘ کی قیادت کرتے رہے۔ عراق میںUS Central Command کی سربراہی کرنے کے بعد اب وہ ہندو کُش میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کی قیادت کر رہے ہیں۔
آتش فشاں کے پھٹنے سے فضا میں پھیلنے والی راکھ کے سبب یورپی ہوائی اڈوں پر پروازوں کا سلسلہ مکمل طور پر بند رہنے کی وجہ سے جنرل میک کرسٹل طے شدہ پلان کے مطابق گزشتہ اتوار کو جرمنی نہیں آسکے تھے۔ تاہم پروازوں کا سلسلہ بحال ہوتے ہی وہ آج برلن پہنچے، جہاں انہوں نے جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سب سے پہلے جرمنی کی وزارت دفاع کے احاطے کے اندر علامتی طور پر گزشتہ دنوں کے دوران افغانستان میں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے میموریل پرپھول چڑہائے۔
اس کے بعد وزارت دفاع میں ہی دونوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ جنرل میک کرسٹل نے کہا کہ جرمنی افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کا ایک اہم پارٹنر ہے اور رہے گا۔ انہوں نے کہا ’شمالی افغانستان میں جہاں جرمن فوج کا ہیڈ کوارٹرقائم ہے، جرمنی دستوں کا کردار امتیازی حیثیت کا حامل ہے اور رہے گا۔ میں ان کی خدمات اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘۔ تاہم امریکی جنرل نے کہا کہ رواں سال نہایت مشکل ثابت ہوگا۔ انہیں نے کہا کہ افغانوں کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ خود اپنے ملک کے معاملات سمبھال سکیں۔ اس موقع پر جرمن وزیر دفاع سوگٹن برگ نے جرمن عوام کی رائے کے برخلاف ہندو کُش میں جرمن فوجیوں کی تعیناتی جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ جرمن وزیر کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی صورتحال نہایت سنگین ہے تاہم جرمنی تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بہترین طریقے سے اپنے فرائض انجام دے گا۔ سوگوٹن برگ کے بقول’ جرمنی اور امریکہ باہمی طور پر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ وفاقی جمہوریہء جرمنی نے شمالی افغانستان کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور وہ اسےآئندہ بھی ممکنہ حد تک نبھاتا رہے گا‘۔ جرمن وزیر نے امریکہ کی طرف سے شمالی افغانستان میں بھی امریکی فوجیوں کی طرف سے جرمن فوج کو معاونت کی یقین دہانی پر جنرل میک کرسٹل کا شکریہ ادا کیا۔
جنرل میک کرسٹل کے برلن پہنچنے سے پہلے ہی سابق جرمن وزیر خارجہ اور موجودہ پارلیمان میں اپوزیشن پارٹی ایس پی ڈی کی پارلیمانی حزب کے سربراہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے خبر رساں ایجنسیوں کو بیان دیتے ہوئے جرمنی کے افغانستان مینڈیٹ کے بارے میں کہا کہ وہ اور ان کی سیاسی جماعت اس بارے میں ایک ذمہ دارانہ سیاست پر زور دیتے ہیں اور اِس سال جنوری میں جو مینڈیٹ طے ہوا تھا، وہ برقرار رہے گا۔ اس موقع پر اشٹائن مائر نے اپنی جماعت سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کو نئے افغانستان مینڈیٹ سے خبردار کیا ۔
ادھر جنرل میک کرسٹل کے دورہء برلن کے ضمن میں جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی دفاعی امور کی ماہر ایلکے ہوف سوائفل نے اشپیگل آن لائن کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ جرمن فوج افغانستان میں نیٹو کی اُس نئی اسٹرٹیجی کے لئے تیار ہے، جس کے تحت افغانستان کے مقامی دستوں کی تربیت کے کاموں میں اضافہ ہونا چاہئے تاہم اُنہوں نے اِس بارے میں شک و شبہ ظاہر کیا کہ ’آیا میرکل حکومت موجودہ صورتحال میں جنرل میک کرسٹل کی اسٹریٹیجی کے مطابق جرمنی سے کئے جانے والے مطالبات کو پورا کر سکتی ہے‘۔ افغانستان میں اس وقت تعینات غیر ملکی فوجی دستوں میں جرمن فوجی دستہ تیسرا بڑا دستہ ہے۔
رپوٹ کشور مصطفیٰ
ادارت امجد علی