افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کا مسئلہ
3 اگست 2009افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کو اس سے پہلے کبھی اتنا خطرناک نہیں سمجھا گیا جتنا کہ اس وقت۔ دریں اثناء چند جرمن سیاستدان کھل کر اسے جنگ کی صورتحال سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ برلن حکومت اس تاثر سے چشم پوشی کر رہی ہے۔
مسلسل بنیادوں پر جرمن فوجیوں اور طالبان کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ یہ نشان دہی ہے اس امر کی طرف کہ افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی ، بنیادی منصوبے کے مطابق نہیں رہی ہے۔ سن دو ہزار ایک میں اس وقت کے وزیر دفاع پیٹر اشٹرک نے کہا تھاکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ طالبان اور القائدہ کے خلاف نبرد آزما جنگی دستوں کی قیادت امریکی کمانڈوز کریں، جبکہ امن دستوں کے ساتھ جرمن فوجی شریک ہوں گے۔
یعنی انسداد دہشت گردی کے لئے امریکہ کی جنگ Enduring Freedom اور سلامتی و تحفظ کے لئے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق تعینات کئے جانے والے آئی سیف کے بین الاقوامی امن دستے، اِن دونوں کے مابین واضح علیحدگی۔ یہ تھا اصل مقصد۔ عملی طور پر یہ فرق بہت تیزی سے دور ہو گیا۔ افغانستان میں منصوبے کے مطابق جرمن فوج کی تعیناتی کا مقصد استحکام کو یقینی بنانے سے تبدیل ہو کر جنگی تعیناتی کی شکل اختیار کر گیا۔ ایک عرصے سے جرمن فوجی افغانستان میں کنوؤں، سڑکوں اور اسکولوں کی تعمیر کی بنیادی ذمہ داری نبھانے کے بجائے مسلح جھڑپوں، فائرنگ اور ہلاکتوں میں ملوث ہو گئے ہیں۔
جرمنی کے موجودہ وزیر دفاع فرانس یوزف یونگ کا خیال ہے کہ افغاستان کے حوالے سے جرمنی پرایک اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کا تعلق جرمن شہریوں کی سلامتی سے بھی ہے کیونکہ افغانستان کو دوبارہ سے دہشت گردوں کی تربیت گاہ نہیں بننا چاہئے۔
یونگ کی طرح ان کے پیش روء اشٹرک کا بھی ماننا تھا کہ افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی سے جرمنی کا دفاع ہندو کش میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ ایک متنازعہ مفروضہ ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے امور کے ماہرین اس امر کا یقین دلا رہے ہیں کہ افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی سے جرمنی کے اندر دہشت گردانہ حملوں کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے گزشتہ سالوں میں متعدد ویڈیو پیغامات کے ذریعے دھمکی دی کہ اگر برلن حکومت افغانستان سے اپنی فوج واپس نہیں بلاتی تو جرمنی کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ’ جرمن فوج کو افغانستان میں رہنا چاہئے یا وہاں سے نکل جانا چاہئے اس سوال پر جرمنی کے پارلیمانی انتخابات سے قبل گرما گرم بحث جاری ہے۔
بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی ’دی لنکے‘ کے سربراہ اوسکر لا فونٹین نے پارلیمانی انتخابات سے پہلے اس امر پر پھر از سر نوء زور دیا ہے کہ آئندہ مخلوط حکومت کے ممکنہ قیام کی راہ میں جرمن فوج کی افغانستان میں تعیناتی کا معاملہ رکاوٹ کا باعث بنے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ کم از کم اس وقت سے جب سے امریکہ نے افغانستان میں زمینی بمباری کی ہے بہت سے افغان اپنی تمام تر فیملی کھو چکے ہیں۔ ان کے اندر بدلہ لینے کا جذبہ جنم لے چکا ہے۔ اس وجہ سے بھی افغانستان میں جرمن فوج کی پر امن تعیناتی ممکن نہیں رہی ہے۔
اوسکر لافونٹین اور انکی پارٹی ’دی لنکے‘ کا موقف بالکل واضح ہے۔ افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی بالکل غلط ہے۔ یہ انکی الیکشت کیمپین یا انتخابی مہم کے لئے ایک ٹرمپ کارڈ ہے۔ ایک سروے کے مطابق دو تہائی جرمن عوام جرمن فوج کی تعیناتی کے خلاف ہیں۔ لافونٹین اشتعال انگیز بیانات میں کہہ رہے ہیں کہ کرسچئن ڈیمو کریٹ لیڈر، جرمن چانسلر میرکل، سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اور آئندہ انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے امیدوار اشٹائن مائر کا افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کا مشترکہ فیصلہ جرمن اکثریتی عوام کی رائے کو نظر انداز کر کے انکے جذبات کی مخالفت کا ثبوت ہے۔