افغانستان میں حکومتی ناانصافیاں، طالبان کے حق میں
16 دسمبر 2010بنیادی طور پر لندن سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک Chatham House نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح طاقتور لوگوں کی جانب سے زمین ہتھیانے، سیاسی سطح پر حریف قبائل کو اہمیت نہ دینے اور ظالمانہ نظر بندیوں جیسے اقدامات سے عام افغانوں کو اس بات کی شہ مل رہی ہے کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔
یہ رپورٹ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے افغانستان میں جنگی حکمت عملی پر غور کرنے کے لئے بلائی جانے والی میٹنگ سے قبل جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے طویل المدتی حکمت عملی بناتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔
امریکی صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں رواں سال 30 ہزار سے زائد مزید فوجی تعینات کیے گئے ہیں جس کے بعد افغانستان میں متعین افواج کی مجموعی تعداد 150 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی سب سے زیادہ کارروائیوں کے شکار صوبے ہلمند اور قندھار میں بڑھتی ہوئی بغاوت یا عسکریت پسند سرگرمیوں کی ایک بڑی وجہ نا انصافی ہی ہے۔ مقامی حکومت کے حکام کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں ناکامی اور طاقت کا غلط استعمال بھی طالبان کو بغاوت بڑھانے میں مدد دے رہا ہے۔
اس کی مثال پیش کرتے ہوئے رپورٹ میں طالبان کے ایک حمایتی کا بیان درج کیا گیا ہے۔ اس گمنام انٹر ویو میں اس نے بتایا کہ ملک کے مرکزی صوبے واردک میں ضلعی پولیس چیف کی سرپرستی میں پولیس اہلکار مقامی لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس لوٹ مار کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور وہ سب ایک گروہ کی صورت میں پولیس چیف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال سے طالبان نے فائدہ اٹھایا جس کی وجہ اس ضلعے کے لوگ طالبان کی حمایت کرنے لگے ہیں۔
اسی طرح حکومت کے سینیئر حکام پر یہ الزام بھی عائد ہے کہ وہ جنگی جرائم میں ملوث افراد کے لئے بنائے گئے قانون کو نظر انداز کرنے کے علاوہ منشیات فروشوں، جرائم پیشہ افراد اور طالبان کمانڈروں کو بھی صدارتی معافی نامے جاری کرتے ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: افسر اعوان