1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں دہشت گردانہ حملے، بائیڈن انتظامیہ کو تشویش

1 فروری 2021

پیر کو افغان وزیر مملکت برائے امن ایک بم دھماکے میں معمولی زخمی ہو گئے اورکابل میں ایک دوسرے حملے میں فوج کی ایک گاڑی میں نصب کردہ بم کے دھماکے میں ایک پولیس افسر اور ایک شہری بھی ہلاک ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/3og2z

افغان پولیس کے مطابق خوشنود نبی زادہ ایک بکتر بند گاڑی میں  سوار تھے کہ یہ دھماکا کابل کی ایک سڑک پراُس وقت ہوا جب ان کے گاڑی قریب سے گزر رہی تھی۔ یہ دہشت گردانہ حملہ افغانستان میں حالیہ دنوں میں شہریوں پر تسلسل سے ہونے والے حملوں میں سے تازہ ترین واقعہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق خوشنود نبی زادہ ایک مقامی نیوز ایجنسی خامہ کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔

افغانستان میں چھوٹے مقناطیسی بموں کے ذریعے ہلاکتیں، گاڑیوں پر چھپ کر فائرنگ اور گاڑیوں کے نیچے دھماکا خیز مواد نصب کر کے ان کو دھماکوں سے اڑا دینے کے واقعات افغان عہدیداروں، کارکنوں اور صحافیوں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ملک میں عدم استحکام کے تسلسل کی بڑی وجہ بھی ہیں۔ افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے باوجود اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔

Afghanistan Anschlag auf Richterinnen
گزشتہ ماہ شمالی کابل میں فائرنگ کے ایک واقعے میں دو خاتون ججوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ تصویر: Rahman Gul/AP/picture alliance

حملے کی مذمت

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNAMA (یوناما) نے آج یکم فروری کو کابل میں کیے گئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''امن عمل میں شامل ایک سینیئر اہلکار  کو حملے کا نشانہ بنانا قابل افسوس واقعہ ہے اور یہ امن عمل پر حملے کے مترادف ہے۔‘‘

یہ بیان یوناما نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں دیا۔ اس بم حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔ افغانستان میں سرکاری اہلکار عام طور پر طالبان کو اس طرح کے حملوں کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی اہلکار ہر طرح کی ٹارگٹ کِلنگ کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں پرڈال دیتے ہیں حبکہ سینیئر سکیورٹی حکام اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بڑے پیمانے پر تحفظ فراہم کرنے کے عمل میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو عوام میں پائے جانے والے خوف و ہراس کو ہوا دے گا۔

Afghanistan Kabul Bombenanschlag
2020 ء کی آخری سہ ماہی افغانستان کے لیے بہت خونریز ثابت ہوئی تھی۔تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

ایک اور حملہ

افغان پولیس کے مطابق آج پیر یکم فروری کو ہی کابل میں ایک دوسرے حملے میں شہر کے ایک مغربی ضلع میں فوج کی ایک گاڑی میں نصب کردہ بم کے دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس افسر کے علاوہ ایک شہری بھی ہلاک ہو گیا۔

بائیڈن انتظامیہ اور طالبان امن ڈیل

’سیگار‘ نامی امریکی واچ ڈاگ اس بارے میں تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ افغان دارالحکومت میں ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ ان حملوں میں حکومتی اہلکاروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور صحافیوں کو ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹ امریکی صدر جو بائیڈن حال ہی میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان اور امریکی حکومت کے مابین گزشتہ برس فروری میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں طے پانے والے امن معاہدے پر از سر نو غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020 ء کی آخری سہ ماہی میں طالبان نے پورے ملک میں اس سے پہلے کی سہ ماہی کے مقابلے میں کم حملے کیے تھے  لیکن 2019 ء کی اس چوتھی سہ ماہی کے مقابلے میں افغانستان میں حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

Afghanistan Kabul Bombenanschlag
سکیورٹی فورسز، صحافی اور سول سوسائٹی کے اراکین طالبان حملوں کا ہدف بن رہے ہیں۔ تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

وائٹ ہاؤس کی اطلاعات کے مطابق جو بائیڈن کے سلامتی امور کےمشیر جیک سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے کہا، ''نئی امریکی انتظامیہ گزشتہ برس فروری میں واشنگٹن اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے پینٹاگون کے سربراہ جان کربی نے کہا تھا کہ امریکا افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں طے پانے والے معاہدے پر قائم رہے گا بشرطیکہ افغان طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تمام روابط ختم کریں اور ملک میں تشدد کو کم سے کم سطح پر لائیں۔

ک م/ م م (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں