افغانستان میں سو سے زائد سابقہ اہلکار مارے جا چکے ہیں، رپورٹ
31 جنوری 2022افغانستان میں گزشتہ برس امریکی و مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے اچانک انخلا کے بعداگست میں طالبان نے کابل پر حکومت قائم کی تھی۔
تازہ رپورٹ طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد رونما ہونے والے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔ اقوام متحدہ کی مرتب کردہ اس خصوصی رپورٹ میں انسانی حقوق کو محدود کرنے کی حکومتی کوششوں کا بھرپور احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس رپورٹ کی ایڈوانس کاپی کے مندرجات کا اتوار تیس جنوری کو مطالعہ کر کے اپنی اسٹوری ریلیز کی تھی۔ اس میں بیان کیے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے پیر اکتیس جنوری کو طالبان کا ردِعمل بھی سامنے آ گیا ہے، جس میں اس رپورٹ کو من گھڑت قرار دے دیا گیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کیا ہے؟
اس رپورٹ کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے مقامی مشن نے مرتب کیا ہے۔ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ سابقہ حکومت سے وابستگی کے شبے میں ہلاکتوں میں طالبان اور ان کے اتحادی مسلح گروپ شامل ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ ان ہلاکتوں کے علاوہ خواتین کی آزادی کو بھی محدود کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ انسانی حقوق کا دائرہ بھی حکومتی اقدامات کی وجہ سے سکڑ کر رہ گیا ہے۔ رپورٹ میں ہلاکتوں کے حوالے سی کہا گیا کہ ان کا تذکرہ قابل اعتماد شواہد کی بنیاد پر شامل کیا گیا اور ان میں ماورائے قانون ہلاکتیں بھی ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا کہ دو تہائی ہلاکتیں اصل میں ماورائے عدالت ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی حکومت میں سابقہ حکومت سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کی جبری گم شدگیوں کا سلسلہ بھی تھما نہیں ہے۔
رپورٹ کے مرتبین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ کئی گرفتاریاں بھی سامنے آئی ہیں۔
عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے پرامن جلسے جلوسوں پر پابندی عائد ہے اور خواتین کو کام کے مقامات تک رسائی بھی میسر نہیں جب کہ لڑکیاں ابھی بھی تعلیمی اداروں کو جانے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔
طالبان کا ردِعمل
طالبان حکومت نے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بیان کردہ حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے نا درست بھی قرار دیا ہے۔
کابل سے طالبان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسلامی امارات نے عام معافی کے اعلان کے بعد کسی ایک انسان کو بھی سابقہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ وابستگی کے شبے میں ہلاک نہیں کیا ہے۔
اس بیان میں واضح کیا گیا کہ رپورٹ میں حقائق درست انداز میں بیان نہیں کیے گئے اور ان واقعات کو بھی طالبان کے ذمے ڈال دیا گیا جن میں ذاتی دشمنیوں کے تحت افراد کا قتل ہوا تھا۔
ع ح/ع ب (اے ایف پی)