1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں اور پرتشدد واقعات

11 اگست 2009

طالبان باغیوں نے افغان صوبہ لوگر کے دارلحکومت پل عالم میں پولیس ہیڈ کوارٹرز اور الیکشن کمیشن کے ایک دفتر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم ازکم پانچ پولیس اہلکاروں سمیت سات شہری ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/J7KV
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے طالبان باغیوں کو ایک خطرناک دشمن قرار دیا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

طالبان باغیوں نے افغان صوبہ لوگر کے دارلحکومت پل عالم میں پولیس ہیڈ کوارٹرز اور الیکشن کمیشن کے ایک دفتر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم ازکم پانچ پولیس اہلکاروں سمیت سات شہری ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے برقعے پہن رکھے تھے۔ یہ تازہ ترین حملہ اس وقت ہوا ہے جب افغانستان میں صدارتی انتخابات کے انعقاد میں صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف منگل کے روز افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے طالبان باغیوں کو ایک خطرناک دشمن قرار دیا ہے۔

صوبہ لوگر کے گورنر کے ترجمان دین محمد درویش نے بتایا ہےکہ صوبائی دارالحکومت میں حملہ آوروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کئی گھنٹوں تک لڑائی جاری رہی۔ اس دوران بدستور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اورطالبان کے حملوں کا نشانہ بننے والی سرکاری عمارتوں پر دھوئیں کے بادل چھائے رہے۔ جائے وقوعہ پر پہنچنے والے صحافیوں نے بتایا کہ اس لڑائی میں سیکیورٹی اہلکاروں کو ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل تھی جبکہ حملہ آوروں نے ایک عمارت میں پناہ لے رکھی تھی جہاں سے وہ راکٹ حملے اور فائرنگ کر رہے تھے۔ دین محمد درویش نے صحافیوں کو بتایا کہ دو خود کش حملہ آوروں نے خود کو سرکاری عمارتوں کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا جبکہ چار دیگر حملہ آور، ایک سرکاری عمارت میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے جنہیں بعد ازاں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی عسکری کارروائی کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔

طالبان کے ترجمان زیبی اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ اُن کے چھ ساتھیوں نے پل عالم میں واقع پولیس ہیڈکوارٹرز اور ایک الیکشن آفس پر حملہ کیا ہے۔

طالبان باغی خبردار کر چکے ہیں کہ وہ 20 اگست کے صدارتی انتخابات کو سبوتاژ کریں گے۔ دریں اثنا ء اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں کے دوران شہری ووٹ ڈالنے سے کترائیں گے جس سےانتخابات کا متاثر ہونا یقینی امر ہے۔ اسی دوران امریکہ اور برطانیہ نے بھی اس صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

Dr Abdullah Abdullah
افغانستان کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی ایک اہم امیدوار تصور کئے جا رہے ہیںتصویر: DW

صدارتی انتخابات کے امیدوار اور موجودہ صدر حامد کرزئی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا ہے کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں طالبان باغیوں کے ساتھ باقاعدہ مکالمت کا راستہ اختیار کریں گے جبکہ طالبان اپنے دیرینہ مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جب تک غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا نہیں ہو جاتا وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔

افغانستان میں کل 35 صدارتی امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں تاہم حامد کرزئی ان میں طاقت ور ترین امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکومتی فنڈ کی طرف سے کئے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ حامد کرزئی ان انتخابات میں مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ متوقع ہے۔ اس سروے میں مجموعی طور پر حامد کرزئی کو 45 فیصد جبکہ ان کے اہم حریف عبداللہ عبداللہ کو 25 فیصد حمایت ملی ہے۔ اگر بیس اگست کے صدارتی انتخابات میں کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو برتری حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہو گا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: ندیم گل