افغانستان میں غیر ملکی امدادی کارکنوں کو کس نے مارا؟
10 اگست 2010پیر کے روز انٹرنیشنل اسسٹنس مشن IAM کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈرک فرینز نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جو افغان ڈرائیور امدادی کارکنوں کے ہمراہ تھا وہ کابل میں وزارت داخلہ کی تحویل میں ہے۔ تاہم ڈرک فرینز نے یہ واضح نہیں کیا کہ سیف اللہ نامی یہ ڈرائیور امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے واقعے میں مشتبہ ہے یا نہیں۔’’سیف اللہ کابل میں افغان وزارت داخلہ کی تحویل میں ہے۔
بظاہر وہ ٹھیک ہے۔ وہ اس کیس میں ایک گواہ ہے، لیکن واحد گواہ نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رشتہ دار بھی اس سے ملاقات کر چکے ہیں۔‘‘ فرینز نے کہا کہ انہیں ڈرائیور سیف اللہ سے مختصر بات کرنے کا موقع ملا تھا۔
بین الاقوامی امدادی ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈرک فرینز کے ان دعووٴں پر افغان وزارت داخلہ کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آسکا۔ پریس کانفرنس میں فرینز نے جن باتوں کا اظہار کیا ہے ان سے طالبان کے ہاتھوں غیر ملکی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے امکان پر شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بیرونی امدادی اراکین کی ہلاکت کے لئے بلا واسطہ مسلح باغی تنظیم طالبان کو قصور وار ٹھہرایا تھا لیکن کرسچن ایڈ گروپ کی رائے اس سے مختلف ہے۔
طالبان نے ہفتے کے روز میڈیکل ایڈ ورکرز کو ہلاک کردینے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ طالبان کے مطابق انہیں اس وجہ سے ہلاک کیا گیا کیونکہ یہ مقدس کتاب ابابیل کا دری ترجمہ ساتھ لئے افغانستان میں مسیحی مذہب کا ابلاغ کر رہے تھے۔ لیکن طالبان کے علاوہ ایک اور عسکری تنظیم نے بھی بین الاقوامی کارکنوں کو جان سے مارنے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس سے یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔
انٹرنیشنل اسسٹنس مشن سے وابستہ بارہ اراکین ایک ٹیم کی صورت میں افغانستان کے دور دراز علاقے بدخشان میں کام کر رہے تھے۔ خیراتی ادارے ’کرسچن چیریٹی انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ نے تصدیق کی ہے کہ اس ادارے سے وابستہ کارکن شمالی افغانستان میں مارے گئے ہیں۔ ان میں ایک جرمن، ایک برطانوی اور چھ امریکی بتائے جاتے ہیں۔
دریں اثناء افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی امریکی مندوب رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی بیورو ’ایف بی آئی‘ امدادی کارکنوں کی افغانستان میں ہلاکت کے واقعے کی اپنے طور پر چھان بین کرے گا۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف