افغانستان: لڑکیوں کے اسکول کھلنے کے بعد پھر بند
24 مارچ 2022افغانستان کی وزارت تعلیم نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ہائی اسکول جانے کی عمر کی لڑکیوں کی تعلیم پر کئی ماہ کی پابندیوں کے بعد، ملک کے نئے تعلیمی سال کے پہلے دن، 23 مارچ، سے لڑکیوں سمیت تمام طلبہ کے لیے اسکول پورے ملک میں کھل جائیں گے۔
تئیس مارچ کو ہائی اسکولی سطح کے لڑکیوں کے اسکول کھلے بھی تاہم چند گھنٹے بعد ہی طالبان نے انہیں دوبارہ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات اسکول نہیں جا سکیں گی۔
بدھ کے روز جب اسکول کھلے تو خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے ایک ہائی اسکول میں اس منظر کی فلم بندی کر رہی تھی۔ تاہم اسی دوران ایک استاد باہر آئے اور کہا کہ کلاس ختم کر دی گئی ہے۔
طالبان انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟
افغانستان کی ایک نیوز ایجنسی باختر کے مطابق، بدھ کے روز وزارت تعلیم کی جانب سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول اس وقت تک بند رہیں گے جب تک کہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق کوئی منصوبہ پوری طرح سے تیار نہیں کر لیا جاتا۔
اس نوٹس میں کہا گیا ہے، ''ہم تمام گرلز ہائی اسکولوں اور ان اسکولوں کو مطلع کرتے ہیں کہ جن میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات موجود ہیں، وہ تا حکم ثانی بند رہیں گے۔''
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے طالبان کے ایک ترجمان انعام اللہ سمنگانی سے جب اس خبر کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا کہ کیا واقعی لڑکیوں کو گھر واپس بھیج دیا گیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا، ''ہاں، یہ سچ ہے۔'' تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید کوئی وضاحت کرنے سے
منع کر دیا۔
دوسری جانب افغان وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان کا کہنا تھا، ''ہمیں اس بارے میں کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔''
فیصلے پر اقوام متحدہ کی تنقید
تعلیم سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے سربراہ سربراہ آڈری ازولے نے طالبان کی طرف سے افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے ایک، ''بڑا دھچکا'' بتایا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''افغانستان میں سیکنڈری اسکول کی لاکھوں لڑکیوں کی اسکول واپسی کا جو وعدہ کیا گیا تھا آج وہ ٹوٹ گیا۔ یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ تعلیم تک رسائی ایک بنیادی حق ہے۔ یونیسکو اپنے اس مطالبے کا اعادہ کر تا ہے کہ مزید بغیر کسی تاخیر کے لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔''
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، اور افغانستان کی سابق سینیئر محقق ہیتھر بار نے بھی اس فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے طالبان کے فیصلے کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیو پوسٹ کی ہیں جس میں افغان طالبات کو روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''افغانستان میں آج لڑکیاں رو رہی ہیں، ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے اسکول دوبارہ کھلیں گے، تاہم آخری لمحات میں طالبان نے انہیں پھر سے بند کر دیا۔''
اساتذہ کی کمی
طالبان کی وزارت تعلیم نے تسلیم کیا ہے کہ حکام کو ملک میں اساتذہ شدید قلت کا سامنا ہے۔ مغرب کی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب طالبان اقتدار پر قابض ہوئے تو ملک سے دسیوں ہزار افراد فرار ہو گئے جس میں اساتذہ کی بھی ایک بڑی
تعداد تھی۔
ترجمان کا کہنا تھا، ''ہمیں ہزاروں اساتذہ کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم عارضی بنیادوں پر نئے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔''
بین الاقوامی برادری نے مستقبل میں طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کے لیے جو مختلف شرائط پیش کی ہیں، اس میں لڑکیوں کی تعلیم ایک اہم مطالبہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایلچی ڈیبورا لیونز نے بھی اسکول بند کرنے رپورٹوں کو ''پریشان کن'' قرار دیا۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''اگر یہ سچ ہے تو پھر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟'' کئی دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور طالبات کے لیے اسکول فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)