افغانستان میں مزید حملوں کا خطرہ
10 مئی 2011افغانستان میں تعینات امریکی حکام نے نئے حملوں کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شورش زدہ جنوبی مغربی صوبے میں امریکی اہلکاروں کی نقل وحرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ قندھار کے مغرب میں واقع صوبہ ہلمند طالبان باغیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ہزاروں فوجی دستے طالبان کی بغاوت کو کچلنے کے لیے تعینات ہیں۔
امریکی حکام کی طرف سے جاری کی گئی وارننگ میں مرجا میں امریکی اہلکاروں کو اپنے کمپاؤنڈز میں ہی رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں بھی ممکنہ حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ لشکر گاہ ان سات علاقوں میں شامل ہے، جہاں جولائی سے امریکی افواج سکیورٹی کی ذمہ داریاں مرحلہ وار افغان دستوں کے سپرد کرنا شروع کر دیں گی۔ غیرملکی اور افغان فوجیوں کی طرف سے مختلف آپریشنز کے باوجود صوبہ ہلمند میں طالبان کی طرف سے سخت مزاحمت کی جا رہی ہے۔
امریکی حکام کی طرف سے یہ نئی وارننگ ایسے وقت میں جاری کی گئی، جب رواں ماہ کے دوران طالبان باغیوں نے نئے حملوں سے خبردار کیا۔
دوسری طرف قندھار میں دو روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد طالبان باغیوں کے حملے کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ قندھار کے صوبائی گورنر طوریالائی ویسا نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کم ازکم بیس خود کش بمباروں نے اس حملے میں حصہ لیا، جنہیں ہلاک کر دیا گیا۔ اس دوران تین افغان اہلکار اور ایک شہری ہلاک ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران چالیس افراد زخمی بھی ہوئے۔
دریں اثناء افغانستان کے مشرقی حصے میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں کم ازکم تین شہری مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ صوبہ لغمان میں موٹر سائیکل پر سوار ایک خود کش حملہ آور نے غیر ملکی فوجیوں کے قافلے پر حملے کی کوشش کی۔ ضلعی گورنر صالح محمد کے مطابق طالبان باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ اس دوران ان کے کچھ فوجی زخمی ہوئے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین