افغانستان میں پاکستانی طالبان کا رہنما گرفتار
12 اکتوبر 2013امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہیرف نے جمعے کو ایک بیان میں بتایا: ’’میں تصدیق کر سکتی ہوں کہ امریکی فورسز نے ایک عسکری کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے رہنما لطیف محسود کو گرفتار کر لیا ہے۔‘‘
انہوں نے محسود کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک سینئر کمانڈر قرار دیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم انہوں نے اس کی گرفتار کے لیے کیے گئے آپریشن کی تفصیلات نہیں بتائی، نہ ہی یہ بتایا کہ یہ کارروائی کہاں کی گئی۔
ہیرف نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’محسود ٹی ٹی پی کا ایک سینئر کمانڈر ہے اور وہ اس گروہ کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا بااعتماد ساتھی ہے۔‘‘
ہیرف کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروہ نیویارک میں ٹائمز اسکوائر پر 2010ء میں بم حملے کی ناکام کوشش کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس گروپ نے امریکی سرزمین پر پھر سے حملہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
محکہ دفاع پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ محسود افغانستان میں ہی تھا۔ پینٹاگون کی ترجمان کمانڈر الیزا اسمتھ کا کہنا ہے: ’’محسود کی گرفتاری القاعدہ، طالبان اور معاون فورسز کے ساتھ مسلح تنازعے کا حصہ ہے، جس کے لیے عسکری فورس استعمال کرنے کی منظوری کا نگریس نے 2001ء میں دی تھی۔ اسے افغانستان میں امریکی ملٹری فورسز نے قانونی طور پر حراست میں لے رکھا ہے۔‘‘
لطیف محسود کی گرفتاری کی خبریں ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری ایک اچانک دورے پر افغانستان پہنچے ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ باہمی سلامتی کے ایک معاہدے کے لیے بات چیت کرنا تھا۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات تعمیری رہی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ آیا اس موقع پر کرزئی نے محسود کی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا یا نہیں۔ قبل ازیں سامنے آنے والی رپورٹوں میں انہوں نے اس گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا: ’’امریکی اسے زبردستی بگرام لے گئے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مہینوں کی بات چیت کے بعد محسود افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے ایجنٹوں سے ملاقات پر تیار ہوا تھا۔