افغانستان: نیٹو اتحاد کے اضافی فوجی دستے
4 دسمبر 2009افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے کہا ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافے اور اِن کی تعیناتی کے بعد اگلے سال کےوسط میں سرگرم طالبان کے خلاف حکمت عملی میں کامیابی کے واضح اشارے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ امریکی فوج میں اضافے کے ساتھ ساتھ مغربی اتحاد کے ممالک کی جانب سے بھی اضافی فوج کے اشاروں سے امید افزاء اندازوں نے تقویت حاصل کر لی ہے۔
دو روز قبل امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں کئی دنوں کے غورو خوص کے بعد تیس ہزار فوج کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔ جس کے ساتھ نیٹو اتحاد کی جانب سےپانچ سے سات ہزار مزید فوجی روانہ کئے جا ئیں گے۔ نیٹو کے ترجمان جیمز آپاتھیورائے کا کہنا ہے جس انداز میں ملکوں کی جانب سے اشارے سامنے آئے ہیں اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں نیٹو کے آئی سیف دستوں میں اضافہ پانچ ہزار سے زائد یقینی ہے۔ نیٹو اتحاد کی تینتالیس میں سے بیس رکن ملکوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنی مزید افواج روانہ کرنے کے لئے رضامند ہیں۔
اسی طرح کا بیان امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگلے دنوں میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مزید ممالک اضافی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کردیں گے۔ انہوں نے امریکی صدر کے فوج کی تعناتی کے اعلان کے حوالے سے جوابی ردعمل کو انتہائی مثبت قرار دیا ہے۔
اِس حوالے سے جرمنی اور فرانس کا مؤقف یکساں ہے یعنی یہ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ آئندہ جنوری کے ماہ میں لندن میں ہونے والی افغانستان کانفرنس سے قبل مزید فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے موضوع پر بحث کرنا لا حاصل ہے۔ دونوں بڑے یورپی ملک افغانستان میں حامد کرزئی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے حکومتی اقدامات کا بغور جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے افغان پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغان سلامتی کے ادارے اپنے ملک کی سیکیورٹی جلد از جلد خود سنبھالنے کے اہل ہوں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغانستان سے متعلق نئی امریکی حکمت عملی پر مشتمل باراک اوباما کے قوم سے خطاب کو ایک ’قوت سے بھرپور سگنل‘ قرار دیا۔
یورپی ملکوں کی جانب سے اضافی دستوں کے اعلانات کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اٹلی نے ایک ہزار فوجی روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البانیہ نے پچاسی فوجیوں کی روانگی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔اسی طرح پولینڈ کی طرف سے چھ سو مزید فوجیوں جبکہ ترکی سے آٹھ سو فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے امکانات قوی ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: کشور مصطفیٰ