افغانستان کے لئے مزید برطانوی فوجی خارج از امکان
10 جون 2010نومنتخب قدامت پسند برطانوی وزیر اعظم کیمرون نے صدر حامد کرزئی کے ساتھ مل کر افغان دارالحکومت میں صحافیوں کو بتایا کہ ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کے خلاف مصروف عمل برطانوی فوجی دستوں کو ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ افغانستان میں قیام نہیں کرنا چاہیے۔
لندن میں قدامت پسندوں اور لبرل ڈیموکریٹس کی مخلوط حکومت کے سربراہ کے طور پر ابھی حال ہی میں اقتدار میں آنے والے ڈیوڈ کیمرون کے مطابق سال رواں افغانستان میں جاری جنگ کے لئے انتہائی اہم ہوگا۔ ٹوری رہنما کیمرون افغانستان کی جنگ کو اپنی حکومت کی سب سے بڑی خارجہ سیاسی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام اگلے چھ ماہ کے دوران اس جنگ کے مقاصد کے حصول کے سلسلے میں واضح نتائج اور بہتری کے خواہش مند ہیں۔
افغانستان متعینہ برطانوی فوجی دستوں کی کُل تعداد ساڑھے نو ہزار بنتی ہے اور وہاں 2001ء سے لے کر آج تک تقریباً 300 برطانوی فوجی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ فوجی ہلاکتوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد برطانوی عوام میں اس جنگ کی حمایت میں کمی کا سبب بھی بن رہی ہے۔
اس پس منظر میں ڈیوڈ کیمرون نے صدر کرزئی کے ساتھ مل کر کابل کے صدارتی محل میں ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ برطانیہ یہ چاہتا ہے، اور یہ بات قومی سلامتی کے حوالے سے اس کے اپنے مفاد میں بھی ہے، کہ تمام تر ذمہ داریاں ایک ایسی افغان ریاست کے حوالے کی جائیں، جو خود اپنی سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہو۔
ڈیوڈ کیمرون نے امریکی صدر باراک اوباما کی اس حکمت عملی کی تو حمایت کی کہ واشنگٹن القاعدہ اور طالبان باغیوں کے خلاف نو سال سے جاری جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لئے اپنے مزید 30 ہزار فوجی افغانستان بھیجے گا تاہم ساتھ ہی انہوں نے کھل کر یہ بھی کہہ دیا کہ افغانستان میں لندن کے فوجی دستوں کی تعداد میں کسی قسم کا اضافہ برطانوی حکومتی ایجنڈے میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔
برطانیہ افغانستان میں، جہاں غیر ملکی فوجی دستوں کی کُل تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار بنتی ہے، امریکہ کے بعد فوجی دستے مہیا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ سال رواں کے آخر تک وہاں امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی جبکہ برطانوی فوجیوں کی تعداد تب بھی ساڑھے نو ہزار ہی رہے گی۔
افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستوں کو طالبان کی طرف سے بدستور کتنی شدید مزاحمت کا سامنا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتوار سے لے کر کل بدھ کے دن تک وہاں طالبان کے مسلح حملوں میں 23 غیر ملکی فوجی مارے جا چکے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اگر محض چند روز میں ایک امریکی جنگی ہیلی کاپٹر مار گرانے کے علاوہ غیر ملکی اتحادی دستوں کو اتنا زیادہ جانی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ باغی 2001ء میں طالبان انتظامیہ کے اقتدار سے نکال باہر کئے جانے کے بعد سے لے کر اب تک شاید اپنی سب سے مضبوط پوزیشن میں ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی