افغانستان کے لیے نیا امریکی کمانڈر نامزد
25 جون 2014موجودہ نائب چیف آف اسٹاف جنرل کیمپبل ایک ایسے وقت پر جوزف ڈنفورڈ کی جگہ لے رہے ہیں جب امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنی افواج کو نکال رہے ہیں۔
انٹرنیشنل اسسٹنس سکیورٹی فورس (آئی سیف) افغانستان سے سال رواں کے آخر تک نکل جائے گی تاہم اس بین الاقوامی فورس کا 9,800 امریکی فوجیوں اور چند ہزار نیٹو کے فوجیوں پر مشتمل ایک چھوٹا دستہ 2015 ء تک افغانستان میں تعینات رہے گا۔
جنرل کیمپبل سن 2010ء سے 2011ء تک مشرقی افغانستان میں 101stہوائی ڈویژن کی سربراہی کر چُکے ہیں۔ تب امریکی فوج افغان باغیوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ لڑ رہی تھی۔ چک ہیگل نے خصوصی امریکی دستوں کی ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل جوزیف ووٹل کو سونپی ہے جبکہ ایڈمرل بل گورٹنی شمالی کمانڈ کے سربراہ ہوں گے۔
پینٹاگون کی طرف سے پیش کردہ ان نامزدگیوں کی منظوری ابھی امریکی سینیٹ کی طرف سے ہونا باقی ہے۔ دریں اثناء افغانستان میں متعین نیٹو اور امریکی فورسز کے سبکدوش ہونے والے کمانڈر ڈنفورڈ کو امریکی بحریہ کے کمانڈر کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ ڈنفورڈ اس وقت بتیس ہزار آٹھ سوُ امریکی فوجیوں اور سترہ ہزار سات سو اتحادی فوجیوں کی افغانستان میں قیادت کر رہے ہیں۔
امریکا نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد 2001 ء میں افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ تب سے افغانستان میں امریکا کی قیادت میں غیر ملکی افواج تعینات ہیں۔ واشنگٹن حکومت 2016 ء میں افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلاء کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے گزشتہ ماہ افغانستان میں متعین امریکی فوج کے انخلا اور رواں برس کے بعد فوج کے حجم سے متعلق جو اعلان کیا تھا، اُس کا سبکدوش ہونے والے افغان صدر حامد کرزئی نے خیر مقدم کیا تھا۔
حامد کرزئی نے امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں صدر اوباما کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجی سن 2016ء تک نکل جانے کا اعلان ایک قابل ستائش قدم ہے۔ کرزئی کے مطابق اس اعلان سے طالبان عسکریت پسندوں کو اپنی مسلح جدوجہد ختم کرنے کے علاوہ کابل حکومت کے ساتھ امن بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اہم وجہ مل جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ کرزئی افغانستان میں امریکی فوجی آپریشنز پر کڑی نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط سے بھی انکار کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ رواں برس کے اختتام تک افغانستان میں صرف نو ہزار آٹھ سو فوجی رہ جائیں گے، جو سن 2016 تک افغانستان سے نکال لیے جائیں گے۔ صدر اوباما کا تاہم کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کا قیام صرف اسی صورت میں ہو گا، جب نئے افغان صدر امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدے (BSA) پر دستخط کر دیں گے۔