1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے نصف بچے اسکول جانے سے محروم

3 جون 2018

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں حالات اتنے خراب ہیں کہ ملک کے نصف بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر نوعمر لڑکیاں ہیں، جنہیں جلدی شادی اور دیگر کئی قسم کے امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2yrj4
Afghanistan deutscher Soladat kommuniziert mit Kindern Anja Niedringhaus
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Niedringhaus

افغان بچوں کے بارے میں ایک رپورٹ مختلف انسانی ہمدری کی بین الاقوامی تنظیموں نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ کو مرتب کرنے والی تنظیموں میں یونیسیف، یو ایس ایڈ اور بین الاقوامی تھنک ٹینک سیموئیل ہال شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان کے بچوں کو پرتشدد حالات کے باوجود، خاندانی و علاقائی تنازعات، غربت، کم عمری کی شادیوں کا سامنا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پرتشدد حالات و واقعات میں اتار چڑھاؤ نے اسکولوں کی جبری بندش کے سلسلے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی علاقوں میں کئی بچوں نے پہلی مرتبہ اسکول میں قدم اُس وقت رکھا جب وہ ٹین ایجر ہو چکے تھے۔

ایسا تاثر عام ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں لاکھوں بچوں کو زندگی میں کبھی کسی اسکول میں قدم رکھنے یا کسی کلاس میں کچھ دیر کے لیے بیٹھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد سینتیس لاکھ کے قریب بنتی ہے اور یہ تعداد سات سے سترہ برس کے درمیان ہے۔ یہ افغانستان کے تمام بچوں کا چوالیس فیصد ہے۔

Afghanistan Rückkehrer in Kabul
سن 2002 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہےتصویر: NRC/Enayatullah Azad

افغانستان کے وزیر تعلیم میر واعظ بلخی بھی ان اعداد و شمار سے متفق ہیں۔ میر واعظ بلخی نے جہادی تنظیموں طالبان یا اسلامک اسٹیٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ افغانستان میں اسکولوں کی جبری بندش کی کئی وجوہات ہیں۔ بلخی نے اس سے اتفاق کیا کہ انسانی معاشرت میں اہم ترین ترقیاتی عمل بچوں کی تعلیم ہی ہوتی ہے۔

افغان وزیر تعلیم کے مطابق جنگی حالات، غربت اور بیروزگاری کا جراٴت کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے تعلیم ہی سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے جنگی حالات سے شدید متاثرہ صوبوں میں پچاسی فیصد کے قریب کم سن بچیاں اسکول نہیں پہنچ پاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایڈل خودر نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کاروباری حالات کا جاری رہنا اہم نہیں ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ خودر نے یہ بھی تحریر کیا کہ جب کوئی بچہ اسکول تک نہیں پہنچ پاتا تو اُس کے استحصال یا اُس کی جبری ملازمت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

رواں برس کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ عسکریت پسندوں نے اسکولوں کو جلانا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پرتشدد حالات نے ایسی ابتری پیدا کر رکھی ہے کہ کئی علاقوں میں اسکولوں کے کھولنے کے امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔