افغانستان کے کچھ علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم کی مکمل اجازت
17 اکتوبر 2021تقریباﹰپورے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں لیکن مزار شریف، جو ازبکستان کی سرحد کے قریب ہے، وہاں مقامی انتظامیہ الگ سوچ رکھتی ہے۔ ذبیح اللہ نورانی شمالی صوبے بلخ میں ثقافت اور اطلاعات کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں لڑکیاں بھی جاتی ہیں اور لڑکے بھی۔ ''جہاں جہاں اسکول کھلے ہیں، وہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کی بلکہ ان جیسے کئی دیگر افسران کی رائے میں بھی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بچیوں کی تعلیم ایک بہت حساس موضوع بن گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ چھٹی جماعت کے بعد لڑکیاں گھروں سے باہر نکل کر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے نہیں جا سکتیں۔ طالبان حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے براہ راست ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ لیکن ان کی حکومت کے قیام کے کئی ہفتے بعد بھی ملک کے زیادہ تر علاقوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں اور یہ واضح نہیں کہ وہ کب کھلیں گے۔
پندرہ سالہ مریم مزار شریف کے ایک اسکول کی طالبہ ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے کے بغیر اسکول جاتی رہی ہے۔ اس نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''ہمیں طالبان کی جانب سے کئی مرتبہ کہا گیا کہ ہم حجاب پہنیں، انہوں نے کہا صرف ہماری آنکھیں دکھائی دینا چاہییں، اور ہمیں ہاتھوں پر بھی دستانے پہننا چاہییں۔ اس کی وجہ سے کچھ لڑکیاں مایوس ہوئی ہیں لیکن ہم اس بات کے لیے شکر گزار ہیں کہ ہمیں اسکول تو جانے دیا جاتا ہے۔‘‘
لڑکیوں کے تعلیم کے بنیادی حق کے حامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بچیوں کو تعلیم کی اجازت ملنے کا زیادہ تر انحصار اکثر مقامی طالبان رہنماؤں پر ہوتا ہے۔
یونیسیف نے بھی گزشتہ سال طالبان کے ساتھ کچھ علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مقامی سطح پر غیر رسمی کلاسوں کا اہتمام کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
مزار شریف میں مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول جانے میں کوئی دشواری نہیں۔ سابق حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق انہوں نے حال ہی میں لڑکیوں کے کئی اسکولوں کے دورے بھی کیے، ''یہاں ہر عمر کی بچیوں کو حصول تعلیم کی اجازت ہے۔‘‘
ب ج / م م (روئٹرز)