1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی مشکلات کے شکار یونان میں ’بدترین‘ کے لیے تیاری

یوآنا کاکیسس/ اعوان15 مئی 2015

کئی برسوں سے اقتصادی بحران کا شکار ملک یونان اب شاید اس افراتفری کا عادی ہو چکا ہے۔ یونانی حکومت اپنے ملک کی بھیانک صورتحال سے پریشان تو ہے مگر اصل مشکلات ملک سے باہر پیدا ہو رہی ہیں۔ یوآنا کاکیسس کی ایتھنز سے رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/1FQLl
تصویر: picture-alliance/dpa/Michael Kappeler

اقتصادی ماہرین کے مطابق خراب اقتصادی حالت کے شکار یونانی عوام کے سامنے یہ سوالات سر اٹھائے رہتے ہیں کہ وہ اپنے یوٹیلیٹی بلز ادا کریں یا پھر قرضے کی اقساط ادا کریں۔ اشیائے ضرورت خریدیں یا ٹیکس ادا کریں۔ عوام اس صورتحال سے اس قدر پریشان ہیں کہ ان کے لیے یہ بات اہم نہیں رہی کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں انہیں کیا فرق پڑے گا۔

یونان کے حوالے سے گزشتہ پانچ برس سے ایسی خبریں وقتاً فوقتاً سنائی دیتی رہی ہیں کہ یہ ملک اب دیوالیہ ہوا کہ اب۔ یونان اور یورو زون کی اقتصادی اور سیاسی صورتحال سے متعلق ایک جریدے میکروپولِس Macropolis کے ایڈیٹر نِک مالکوٹزس Nick Malkoutzis کہتے ہیں کہ اس تمام عرصے کے دوران ایک خدشے کا اظہار اکثر کیا جاتا رہا اور وہ یہ تھا کہ کیا یونان یورو زون میں موجود رہے گا یا نہیں مگر اب لوگوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یونان میں نئی حکومت کے قیام کو چار ماہ ہو چکے ہیں اور اس عرصے کے دوران عوام کی جانب سے نہ تو کسی قسم کے مظاہروں یا احتجاج کا سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے اور نہ ہی کسی پریشانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یونان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو منگل 12 مئی کو 750 ملین یورو کی طے شدہ قسط ادا کر دی ہے۔ تاہم یونانی وزیر خزانہ یانِس واروفاکِس نے فوری رقم کی ضرورت کے حوالے سے بھی متنبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونانی ضروریات پوری کرنے کے لیے دو ہفتوں میں ہی مزید رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یونانی وزیر خزانہ یانِس واروفاکِس نے فوری رقم کی ضرورت کے حوالے سے بھی متنبہ کیا ہے
یونانی وزیر خزانہ یانِس واروفاکِس نے فوری رقم کی ضرورت کے حوالے سے بھی متنبہ کیا ہےتصویر: Reuters/A. Konstantinidis

تاہم مالکوٹزِس کے مطابق بعض یونانی خاموشی سے بدترین حالات پیدا ہونے کی صورت میں ضروری منصوبہ سازی میں لگے ہوئے ہیں:’’اگر آپ گزشتہ برس دسمبر کے بعد سے بینکوں کی صورتحال دیکھیں تو بڑی تعداد میں رقوم نکالی گئی ہیں ... اور یہ 15 فیصد یا قریب 25 بلین یورو بنتے ہیں۔ زیادہ تر نقد رقوم کی شکل میں پیسے نکالے گئے ہیں۔‘‘

عوامی جائزوں میں زیادہ تر لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یونان یورو زون سے نہیں نکلے گا جبکہ اکثریت کی یہ بھی خواہش ہے کہ یونان میں بطور کرنسی یورو ہی کو رائج رہنا چاہیے۔

میکروپولِس کے ایڈیٹر نِک مالکوٹزس Nick Malkoutzis کہتے ہیں کہ رواں برس یونان کے لیے 2010ء اور 2012ء کے مقابلے میں بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تب یونان کے یورو زون سے نکلنے کے خطرات پیدا ہو گئے تھے اور ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اگلے چند ہفتوں کے دوران مالی مشکلات کے شکار یونان کے لیے کسی امدادی پیکج سے متعلق معاہدہ نہ ہو پایا تو اس کے دیوالیہ ہو جانے کے خدشات حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔