اقوام متحدہ: طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کی مذمت
28 دسمبر 2022اقوام متحدہ کی 15رکنی سلامتی کونسل میں اتفاق رائے سے منظور کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی "انسانی حقوق کا احترام اور بنیادی آزادیوں کے زوال میں اضافہ کی نشانی ہے۔"
سلامتی کونسل نے کہا کہ ان پابندیوں کا ملک میں انسانی امدادی سرگرمیوں میں مصروف گروپوں بشمول اقوام متحدہ کی تنظیموں پر بھی خاطرخواہ اور فوری اثر پڑے گا۔"
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے ہفتے کے روز غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کردی تھی۔ انہوں نے اپنے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض خواتین اسلامی شرعی لباس کے ضابطوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی تھیں۔
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی، پاکستان میں بھی احتجاج
طالبان نے یونیورسٹیوں میں خواتین اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پہلے ہی معطل کر رکھی ہے۔
خواتین پر پابندیاں افغان عوام سے وعدوں کے برخلاف
طالبان نے ملازمت کے بیشتر شعبوں میں خواتین پر روک لگا دی ہے اور عوامی مقامات پر خواتین کو مکمل شرعی لباس پہننے کا حکم دیا ہے۔ خواتین کے پارکوں اور جم میں جانے پر بھی پابندی ہے۔
سلامتی کونسل نے اپنے بیان میں کہا، "یہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام سے کیے گئے وعدوں نیز بین الاقوامی برادری کے توقعات سے متصادم ہیں۔"
افغانستان: طالبان نے تفریحی پارکوں میں بھی خواتین کے جانے پر پابندی لگا دی
سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن (یو این اے ایم اے) کو اپنی مکمل حمایت جاری رکھنے کا بھی وعدہ کیا۔
افغانستان میں یونیورسٹی پر پابندی کے خلاف طلبہ کا احتجاج اور گرفتاریاں
لاکھوں افغانوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے چار بڑے عالمی امدادی گروپوں نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ اپنی کارروائیاں اس لیے معطل کر رہے ہیں کیونکہ وہ خواتین عملے کے بغیر اپنے پروگرام چلانے سے قاصر ہیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ایسی پالیسیوں کے "خوفناک " نتائج برآمد ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خواتین اور امدادی تنظیموں پر طالبان کی پابندی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "یہ ناقابل جواز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اور انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔"
انہوں نے مزید کہا،"خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔"
طالبان کی پالیسیوں سے معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا،"کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کو پابندی کا شکار بنا کر سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا بلکہ حقیقتاً اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتا۔"
طالبان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ
انہوں نے مزید کہا، "خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل قبول پابندیاں نہ صرف تمام افغان شہریوں کے مصائب میں اضافہ کریں گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ اس سے افغانستان کی سرحدوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایسی پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
ج ا/ ص ز(اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)