اقوام متحدہ کی تفتیش سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، میانمار
18 جولائی 2017میانمار کی نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کے سکیورٹی ایڈوائزر نے راکھین ریاست میں خیمہ زن روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ایک ممکنہ تفتیشی عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اُن کے ملک کی مغربی ریاست میں پیدا شدہ حالات کو مزید خراب اور تناؤ میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
سکیورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا، روہنگیا مسلم خواتین
’بودھ دہشت گردی کی علامت‘ کا راکھین کا اشتعال انگیز دورہ
روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد، سُوچی اور یورپی یونین میں اختلافات
اس تفتیش کے تناظر میں میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کے اُن تین ماہرین کو ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے، جو راکھین پہنچ کر روہنگیا آبادی کی ہلاکتوں، عورتوں کے ریپ اور ٹارچر کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
اس مشن کے حوالے سے اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نِکی ہیلی نے میانمار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے مشن کے ساتھ تعاون کرے۔ اس مشن کو عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک قرارداد کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔
آنگ سان سوچی کے سکیورٹی ایڈوائزر تھاؤنگ تُن نے ینگون میں سفارت کاروں کے سامنے اپنے ملکی موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مشن کے قیام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ کسی صورت میں ایک تعمیری فیصلہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس اجلاس میں میامنار میں تعینات امریکی سفیر بھی موجود تھے۔ تُن نے یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق کے کمیشن کے اجلاس میں اس قرارداد سے چین اور بھارت کی دوری اُن کے اصولی موقف کی حمایت ہے۔
میانمار میں مقیم دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی اکثریتی بدھ آبادی کے انتہائی ناروا سلوک کو سب سے متنازعہ معاملہ خیال کیا جاتا ہے۔ میامنار کی حکومت نے روہنگیا آبادی کو غیرقانونی مہاجرین قرار دے کر شہریت دینے سے محروم کر رکھا ہے۔ مقامی آبادی بھی اپنی حکومت کی طرح انہیں بنگلہ دیش سے مہاجرت کرنے والے باشندے قرار دیتے ہیں۔