اقوام متحدہ کی طرف سے حلب میں جنگی جرائم کا انتباہ
5 مئی 2016حلب کے بحران کے موضوع پر پندرہ رُکنی سکیورٹی کونسل کا اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکا اور روس نے جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع پر اتفاق کر لیا ہے جس کی وجہ تقریباً دو ہفتوں سے مسلسل شمالی شہر حلب پر ہونے والے حملے بنے۔
اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے ایک اعلیٰ اہلکار جیفری فلٹمن کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’میں بالکل واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہسپتالوں پر براہ راست اور دیدہ و دانستہ حملے جنگی جرائم ہیں۔ کسی بحران کے دوران بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔‘‘
فلٹمن نے مطالبہ کیا ہے کہ شام کا معاملہ دی ہیگ کی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ یا بین الاقوامی فوجداری عدالت کو بھیجا جائے۔ اُن کے بقول،’’جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔‘‘
2014ء میں سلامتی کونسل نے بحران زدہ عرب ملک شام میں جنگی جرائم کا معاملہ آئی سی سی )انٹر نیشنل کریمنل کورٹ( کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم اسے چین اور شامی حکومت کا اتحادی روس نے ویٹو کر دیا تھا۔ اب بھی از سر نو اس بارے میں کیے جانے والے مطالبے کی حمایت سامنے آنے کے آثار کم ہی نظر آ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی امداد کے سربراہ اسٹیفن اوبرائن نے کہا، ’’حلب میں انسانوں کی زندگی ہولناک ہے۔‘‘ انہوں نے شام میں طبی سہولیات کے مراکز پر ہونے والے حملوں پر دل کی گہرائیوں سے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کی شدید مذمت کی۔
شام میں حکومت اور باغیوں دونوں ہی کے قبضے والے علاقوں میں قائم ہسپتالوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ جس پر عالمی سطح پر غم و غصے کا اظہار بھی سامنے آتا رہا ہے۔ حلب میں بپا شورش کے سبب سینکڑوں انسانی جانیں اب تک ضائع ہو چُکی ہیں اوریہ شورش اس مہینے جنیوا میں امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی کوششوں کو ناکام بنانے کا سبب بن سکتی ہے۔ امن مذاکرات، پانچ سالہ جنگ کے خاتمے کی کوشش ہیں۔
برطانیہ، امریکا اور فرانس شہر حلب میں جنگ کی آگ کو بھڑکانے اور اس میں شدت پیدا کرنے کی مکمل ذمہ داری دمشق حکومت پر عائد کر رہے ہیں جبکہ روس کا اصرار ہے کہ بشار الاسد کی فورسز دہشت گرد گروپوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر سمانتھا پاور کا کہنا تھا، ’’شامی حکومت نے محض گزشتہ دو ہفتوں کے دوران حلب میں 300 سے زیادہ فضائی اور توپ خانوں کے 110 حملے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ 18 میزائل داغے اور 68 سے زائد بم برسائے ہیں۔‘‘
امریکی سفیر نے روس اور شام کے ان دعووں کو مسترد کیا ہے کہ حلب پر حکومتی فورسز کے حملوں کا ہدف دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر تھے۔ سمانتھا پاور کے بقول حملے جن مقامات پر کیے گئے ان میں ایک ایمبولینس، ایک مارکیٹ، ایک بیکری، ایک اسکول اور ایک مسجد بھی شامل ہیں۔
اُدھر اقوام متحدہ میں شام کے نائب سفیر Mounzer Mounzer نے کونسل کے اجلاس میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا، ’’شامی حکومت حلب میں جو کچھ کر رہی ہے اُس کا مقصد محض اپنے شہریوں کو دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔‘‘