اقوام متحدہ کے پينل کا جولين اسانج کے حق ميں فيصلہ
4 فروری 2016برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ نيوز ايجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق سوئٹزرلينڈ کے شہر جنيوا سے ابھی تک اقوام متحدہ کے ’ورکنگ گروپ آن آربيٹريری ڈيٹنشن‘ کی جانب سے کوئی بيان جاری نہيں کيا گيا ہے۔ اسی محکمے ميں اسانج نے فيصلے کے ليے درخواست جمع کرا رکھی تھی۔ اسانج کے حق ميں فيصلے کی پيش رفت کے بارے ميں خبر ايک برطانوی نشرياتی ادارے کے ذرائع سے جاری کی گئی ہے۔ اس پيش رفت کے نتيجے ميں جولين اسانج کا تقريباً ساڑھے تين برس کا لندن ميں ايکواڈور کے سفارتخانے ميں قيام ’غير قانونی حراست‘ کے مساوی ہے۔
دريں اثناء برطانوی دفتر خارجہ کے مطابق اسانج کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات اب بھی موجود ہيں اور اسی وجہ سے برطانيہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہيں سويڈن کے حوالے کيا جائے۔
اس سے قبل اسانج نے سويڈن حوالگی سے بچنے کے ليے لندن ميں ايکواڈور کے سفارتخانہ چھوڑ کر خود کو پوليس کے حوالے کرنے کا کہا تھا تاہم انہوں نے ايسا صرف اسی صورت کرنے کو کہا تھا کہ جب ان کے کيس کی تحقيقات کرنے والا اقوام متحدہ کا پينل ان کے خلاف فيصلہ سنائے۔
جنيوا ميں اقوام متحدہ کے ’ورکنگ گروپ آن آربيٹريری ڈيٹنشن‘ ميں جمع کرائی جانے والی اپنی درخواست ميں اسانج نے موقف اختيار کيا تھا کہ انہيں کسی جرم کے شواہد يا امکان کے اور کسی قانونی کارروائی کے بغير ہی حراست ميں رکھا گيا ہے۔ ان کے بقول ان کو ان کو بنيادی آزاديوں سے محروم رکھا گيا ہے، جن ميں سورج کی روشنی، تازہ ہوا اور مناسب طبی سہوليات بھی شامل ہيں۔
حکومتوں اور اداروں کے خفيہ راز فاش کرنے کا دعویٰ کرنے والی ويب سائٹ وکی ليکس کے بانی چواليس سالہ آسٹريلوی شہری اسانج سويڈن ميں سن 2010 ميں جنسی زیادتی کے کيس ميں تفتيش کے ليے مطلوب ہيں۔ اسانج اپنے خلاف يہ الزام رد کر چکے ہيں۔
برطانوی پوليس نے بھی يہ کہہ رکھا ہے کہ ايکواڈور کا سفارتخانہ چھوڑنے پر اسانج کو حراست ميں لے ليا جائے گا۔ برطانوی پوليس کے ايک ترجمان نے کہا کہ ان کی گرفتاری کا وارنٹ اب بھی موجود ہے۔
جولين اسانج کو در اصل خدشہ ہے کہ سويڈن انہيں امريکا کے حوالے کر دے گا، جہاں انہيں وکی ليکس کی ويب سائٹ پر متعدد خفيہ عسکری اور سفارتی دستاويزات جاری کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اسانج عالمی سطح پر مقبول سن 2010 ميں اس وقت ہوئے جب وکی ليکس پر امريکی ملٹری کی جانب سے عراقی دارالحکومت بغداد ميں 2007ء ميں کيے گئے ايک فضائی حملے کی ويڈيو جاری کی گئی، جس ميں ايک درجن افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن ميں نيوز ايجنسی روئٹرز کے عملے ميں دو افراد بھی شامل تھے۔ بعد ازاں اس گروپ نے نوے ہزار خفيہ دستاويزات شائع کيے، جن ميں افغانستان اور عراق ميں کيے گئے آپريشنز کی خقيہ معلومات درج تھيں۔