الاقصیٰ مسجد: کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ روک دیا گیا
19 اپریل 2016اردن نے کہا ہے کہ یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں سکیورٹی کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ ترک کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ فلسطینیوں کی طرف سے سامنے آنے والے خدشات ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا کمپاؤنڈ تاریخی شہر یروشلم کے مشرقی حصے میں واقع ہے، جو اردن کے پاس تھا اور اسرائیل نے 1967ء میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ مسجد الاقصی ٰ کا انتظام اردن کا مذہبی ادارہ وقف سنبھالتا ہے مگر اس تک آنے جانے والے راستوں کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے۔ قبل ازیں اسرائیل نے بھی سکیورٹی کیمروں کی تنصیب پر اعتراض کیا تھا۔
اردن کے وزیراعظم عبداللہ النسور نے آج حکومتی نیوز ایجنسی بترا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ہمیں کچھ لوگوں کے ردعمل اور اس منصوبے کے بارے میں ان کی رائے سن کر حیرانی ہوئی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے پر سب متفق نہیں ہیں اور یہ معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے، ’’ہم نے اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
بیس مارچ کو اردن نے کہا تھا کہ 55 سکیورٹی کیمرے تیار ہیں اور اب مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی ممکنہ ’خلاف ورزی‘ پر نظر رکھی جا سکے گی۔
مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں سکیورٹی کیمرے لگانے کا ایک مقصد اسرائیلی مبینہ خلاف ورزیوں پر نظر رکھنا بھی تھا۔ قبل ازیں گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، اُردن کے شاہ عبدللہ اور فلسطینی رہنما محمود عباس کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کے بعد ان رہنماؤں نے مسجد اقصیٰ کے ارد گرد ہونے والی مسلسل گڑبڑ اور جھڑپوں میں کمی لانے کے لیے وہاں کیمروں کی تنصیب کے منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ بعدازاں اسرائیل نے بھی اس منصوبے سے اتفاق کر لیا تھا۔
اردن کے وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد نگرانی کرنے والے کیمروں کی تنصیب تھی تاکہ ’’احاطے اور اس مقدس مقام پر اسرائیل کی طرف سے بار بار کی جانے والی جارحیت کو دستاویزی شکل فراہم کی جا سکے۔
تاہم اس منصوبے پر سب سے زیادہ اعتراض کرنے والے فلسطینی اور اسلامک موومنٹ کے مذہبی رہنما رائد صلاح نے اردن سے اس منصوبے کا از سر نو جائزہ لینے کی اپیل کی ہے۔ اس رہنما نے ماضی کی طرح دوبارہ اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ یہ کیمرے، ’’اسرائیل کی آنکھ‘‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مذہبی مقام ہے جبکہ اسی کمپاؤنڈ میں واقع ٹیمپل ماؤنٹ یہودیوں کا سب سے مقدس مقام ہے۔ اسی باعث یہ علاقہ فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے درمیان جھڑپوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ طویل عرصے سے لاگو قوانین کے مطابق یہودیوں کو اس کمپاؤنڈ میں آنے کی اجازت تو ہے مگر وہ وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔