البغدادی کی بیعت، ’اطاعت یا مجبوری‘
8 مارچ 2015
نائجیریا کے شدت پسند گروہ بوکو حرام کے سربراہ ابو بکر شیکاؤ کی طرف سے ہفتے کی رات جاری کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے سربراہ ابو بکر البغدادی کی بیعت کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ’مذہبی فریضہ‘ ہے۔ اس جنگجو رہنما کے مطابق اس پیش رفت سے ’اللہ کے دشمن غضب میں مبتلا‘ ہو جائیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ اس سے قبل لیبیا سے لے کر پاکستان تک فعال متعدد جنگجو گروہ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وفاداری کا عہد کر چکے ہیں لیکن بوکو حرام کی طرف سے شام و عراق میں سرگرم اس خطرناک شدت پسند تنظیم کی حمایت انتہائی اہم تصور کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں ایسے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں کہ مغربی طاقتیں، جو ابھی تک اس افریقی ملک میں براہ راست عسکری مہم سے کترا رہی ہیں، اب اس تنازعے کے حل کے لیے میدان میں کود پڑیں۔
رسک کنسلٹنٹسRed24 سے وابستہ سیکورٹی تجزیہ نگار رائن کومنگز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اب نائجیریا میں بوکو حرام کے خلاف مغربی طاقتوں کی توجہ بڑھے گی۔ بالخصوص فرانس کی، جو پہلے ہی براعظم افریقہ کے وسطی خطے میں انسداد دہشت گردی کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ برس جون میں معرض وجود میں آنے والا سنی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ تیزی سے پنپ رہا ہے، جو ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے۔
شدت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے بوسٹن یونیورسٹی سے منسلک ماکس ابراہم کے مطابق بوکو حرام اور اسلامک اسٹیٹ دونوں ایک ہی نظریے کے حامی ہیں، ’’یہ دونوں گروہ تشدد پسند ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی ہیں۔‘‘
دوسری طرف کچھ ناقدین کا یہ خیال بھی ہے کہ بوکو حرام کی طرف سے اسلامک اسٹیٹ سے وفاداری کا اعلان دراصل حکمت عملی کے حوالے سے ایک مجبوری ہو سکتا ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں ان دونوں عسکریت پسند گروہوں کو شدید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔
برلن میں ماڈرن سکیورٹی کنسلٹنگ گروپ سے وابستہ انسداد دہشت گردی امور کے ماہر ’ین ساں پیئر‘ کہتے ہیں، ’’حالیہ کچھ ہفتوں یا مہینوں کے دوران ان دونوں گروہوں کو شدید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ میرے خیال میں جنگجو گروہ اپنے خلاف سرگرم مقامی اور بین الاقوامی دستوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں۔ اسی طرح بالخصوص بوکو حرام زیادہ حامی اکٹھے کرنے کے قابل بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
مشرق وسطیٰ امور کے ماہر پیٹر فان اوسٹیان کہتے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ نے شام اور عراق کے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، وہاں سکونت پذیر عام افراد کی تعداد کم ازکم آٹھ ملین بنتی ہے۔ دوسری طرف بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے محقق لوئی الخطیب کے مطابق ان علاقوں میں چھ تا سات ملین افراد آباد ہیں۔ ان دونوں ماہرین کے مطابق یوں اسلامک اسٹیٹ اپنے عسکری مقاصد کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ بھرتی کر سکتا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ علاقوں میں جنگجوؤں کے سخت کنٹرول کی وجہ سے وہاں کی معلومات باہر آنا انتہائی مشکل ہیں، اس لیے ان جنگجوؤں کی درست تعداد کے بارے میں بھی مصدقہ اطلاعات دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم الخطیب کے اندازوں کے مطابق عراق و شام میں ایسے شدت پسند جنگجوؤں کی تعداد 80 ہزار تک ہو سکتی ہے، جن میں بیس ہزار غیر ملکی عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
پیٹر فان اوسٹیان نے اس تعداد کا اندازہ ساٹھ سے 70 ہزار لگایا ہے۔ شامی حالات پر نظر رکھنے والے لندن میں قائم غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ صرف شام میں ہی ان جنگجوؤں کی تعداد 45 ہزار ہے۔