الرجی کا سبب بننے والی پوشیدہ وجوہات
10 مارچ 2010گلے میں خراش، ناک میں خارش، آنکھوں میں سوزش اور سر میں درد۔ اکثر ہم اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں تاہم ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہےکہ جسم پرکسی بکٹیریا نے حملہ کر دیا ہے اور اب بخار کا اٹیک ہوگا اور اس کیفیت سے تب ہی نجات ملے گی جب اینٹی بائیوٹک دواؤں کا کورس مکمل ہوگا۔ تاہم یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ اکثر وبیشتر ان علامات کے پیچھے الرجی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
الرجی ہی سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کرتی ہے کیونکہ اسکی وجوہات بے شمار ہیں۔ اکثر چھینکوں کا سلسلہ بہت ہی بے موقع شروع ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ ہم جس جگہ ہوتے ہیں وہاں ارد گرد کا ماحول، موسم، ہوا اوراُس جگہ پائی جانے والی اشیاء، کسی بھی چیزسے ہمیں الرجی ہو سکتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔
امریکی ریاست کولوراڈو کے دارلحکومت ڈینورمیں قائم میڈیکل ریسرچ سینٹر سے منسلک الرجی اسپیشلسٹ ریچرڈ ویبر نے چند ایسی اشیاء کا پتہ چلایا ہے جو بظاہر عام زندگی کا حصہ ہوتی ہیں تاہم ان میں مخفی طور پر الرجی کا سبب بننے والی بیشمار چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
حاری امریکہ، افریقہ، اور ایشیا کے جنوب مشرقی جزائر میں پائے جانے والے ایک خاص درخت سے، جسے ’کاپوک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے نکلنے والے جنگلی پھل کے بیجوں کو ایک عرصے سے تکیے، سلیپنگ بیگز اور صوفوں کے گدے وغیرہ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طبی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پرندوں کے پروں کی طرح کاپوک درخت کے جنگلی پھل کے بیجوں سے تیار کردہ روز مرہ کے استعمال کی اشیاء خود تو بچوں اور بڑوں دونوں میں الرجی کا باعث نہیں بنتی تاہم ان اشیا میں چھپی ہوئی گرد، پھُپھوندی اور کیڑے دراصل الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ماہر الرجی ریچرڈ ویبر کا کہنا ہے کہ مرطوب آب و ہوا والے علاقوں میں فوم ، ربر اور سینتھٹک مواد سے تیار کردہ تکیے، گدے اور بچوں کے کھلونوں میں بھی بہت جلدی گرد، پھُپھوندی اور کیڑے گھر بنا لیتے ہیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ ایسی چیزیں کم عمر بچوں سے لے کر معمر انسانوں تک کے اندر الرجی پیدا کر دیتی ہیں۔ تاہم ڈاکٹر ویبر کے مطابق اپنی پسند کی ان اشیا کو پھینکنے کی بجائے انہیں 130 ڈگری فارن ہائیٹ تک گرم پانی سے دھو لینا چاہئے اور اس پانی میں یوکلپٹس آئل کے چند قطرے ڈال دینے سے کیڑے بھی مر جاتے ہیں اور دھلنے والی اشیا سے ایک بہت اچھی خوشبو بھی آنے لگتی ہے۔
گھروں میں کتے، بلی یا دیگر پالتو جانور نا بھی ہوں تب بھی جانوروں کے جسم سے اترنے والی خشکی ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ویبر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پہلے یہ مفروضہ پایا جاتا تھا کہ جس گھر میں پالتو جانور ہوں گے صرف وہیں گرد سے بھی باریک جانوروں کی خشکی موجود ہوگی تاہم متعدد نئی ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ گھروں، بسوں، ٹرینوں موٹر گاڑیوں ، ہوائی جہازں سے لیکر سنیما ہالز اور تھیٹر کی سیٹوں تک میں ہر جگہ جانوروں کے جسم سے اترنے والی خشکی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پالتو جانور رکھنے والے افراد کے لباس پر جانوروں کے جسم سے اترنے والے روئیں، بال اور خشکی موجود ہوتی ہے اور یہ جہاں جہاں بیٹھتے ہیں، وہاں تک الرجی کا سبب بننے والی یہ چیزیں پہنچ جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کی الزجی سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ گھروں میں جانور نہ پالے جائیں اور ایسی جگہوں اور انسانوں سے دور رہا جائے جن کے پاس سے یہ الرجی پھیلنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
ماہر الرجی ریچرڈ ویبر نےطوفانی ہوا کو بھی الرجی کا سبب بننے والی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق تیز ہوا کا جھونکا زمین پر پائے جانے والے نہایت باریک زرات کو اڑاتے ہوئے انسانی چہرے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ زرے ’پولن‘ یا زر گل سے ایک ہزار گنا باریک ہوتے ہیں جو سانس کے ذریعے بڑی آسانی سے پھپھڑوں میں جاکر نہایت سنگین مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ ان ذرات سے پیدا ہونے والے الرجک ایستھما یا دمے کا مرض موذی ثابت ہوتا ہے۔
امیرکن اکیڈمی آف ایستھما اینڈ ایمیونولوجی کے ماہرین کی ہدایات کے مطابق کھانوں کو محفوظ کرنے والے ایسے برتنوں کوجن کا مُنہ سختی سے بند کیا جاتا ہے تاکہ انہیں بیرونی درجہ حرارت متاثر نہ کرے، اکثرو بیشتر صاف کرتے رہنا چاہئے۔ اس طرح انہیں پھپُھوندی لگنے سے بچایا جا سکتا ہے، جو الرجی اور ایستھما کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کشور مصطفیٰ
ادارت افسر اعوان