الزائمر کے شکار افراد کی مدد شاعری سے
20 اپریل 2015لارس رُپیل اپنے گھٹنوں کے بل اپنے قریب بیٹھی ایک عورت کے سامنے جھکتا ہے اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا ہے۔ پھر وہ برلن کے لہجے میں ایک نہایت جذباتی نظم پڑھنے لگتا ہے، ’’یہ کاٹ کے روٹی دیتے ہیں۔ یہ کافی بناتے پھرتے ہیں اور رکھ دیتے ہیں برتن بھی پاس۔ پھر دھوتے، سوکھاتے ہیں، رکھ دیتے ہیں، انہیں اپنی جگہ، یہ سب کچھ ہے ان ہاتھوں سے۔‘‘ 29 سالہ رُپیل نے جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب قائم معمر افراد کے ایک مرکز میں یہودی مزاحیہ شاعر کرٹ ٹوشولسکی کی جرمن نظم ’موٹر ہینڈے‘ یا ’ماں کے ہاتھ‘ پڑھ رہے ہیں۔
روسیل ہائیم میں واقع اس مرکز میں رُپل ایک بزرگ خاتون کے ہاتھ پکڑ کر یہ نظم پڑھ رہے ہیں، تو اس لمحے آس پاس موجود افراد میں سے کچھ کے چہروں پر مسکراہٹیں اور کچھ کے چہروں پر آنسوؤں کے قطرے دوڑتے دیکھے جا سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ تمام افراد یہ نظم روپیل کے ہمراہ پڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شاعری کے اس پروجیکٹ کو ’چلتے الفاظ‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کا مقصد الزائمر میں مبتلا افراد کی دھندلا جانے والی یادوں کو پھر سے بیدار کرنا ہے۔ اس مرکز میں موجود 14 خواتین میں سے زیادہ تر ڈمنشیا یا ڈپریشن کی شکار ہیں۔
معروف جرمن شاعری چاہے وہ یوآخم رنگل نٹس کی ہو، ہائنرشے ہائنے کی یا ژوزُف فون آئشنڈروف کی، ایسے افراد کی دھندلی یادوں کو زندہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ خیال امریکی شاعر گیری گلازنر نے الزائمر شاعری پروجیکٹ 2004ء شروع کر کے دیا تھا۔ رُپل نے سن 2009ء میں گلازنر کو جرمنی بھی مدعو کیا تھا اور تب سے وہ یورپ بھر میں معمر افراد کے مراکز میں تعینات افراد کو تربیت دے رہے ہیں۔
رُپیل اب رُسیل ہائم میں اسکول کی ایسی بچیوں کے ساتھ بھی جڑے ہیں، جو مستقبل میں سوشل ورکر بننا چاہتی ہیں۔ ان 16 اور 17 برس کی لڑکیوں کو رُپیل اس مرکز میں کام شروع کرنے سے قبل ہی، یہ تربیت دے رہے ہیں کہ کس طرح انہیں ان معمر مریضوں سے ملنا ہے۔ اسکولوں کی یہ بچیاں بھی مستقبل میں ’واکنگ ورڈز‘ یا ’چلتے الفاظ‘ نامی اس پروجیکٹ کے تحت کام کریں گی۔ ’ان طالبات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شاعری کے ذریعے کیا کچھ ممکن ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’اہم بات یہ نہیں کہ یہ پروجیکٹ ڈمنشیا کے مریضوں کی حقیقی مدد کرتا ہے یا نہیں۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ معمر افراد اور نگہداشت کے ان مراکز میں ثقافت کے لیے جگہ پیدا ہوتی جا رہی ہے۔