الزام لگانے والے پارلیمان میں آکر بات کریں:من موہن سنگھ
20 دسمبر 2010یہی نہیں بلکہ من موہن سنگھ کی حکومت کو متعدد سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔ بدعنوانی کے ساتھ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے جیسے مسائل نے حکومت کی ساکھ کو خاصا مجروح کیا ہے۔
من موہن سنگھ نے حکمران جماعت کانگریس پارٹی کے 2006 کے بعد سے اب تک کے پہلے پلینری سیشن کے انعقاد کے موقع پر اُس کے نمائندوں سے کہا، ’ممکنہ طور پر وزیر اعظم کی حیثیت سے مُجھ سے کچھ غلطیاں سر زد ہوئی ہوں گی، تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے چھپانا پڑے۔‘
کانگریس پارٹی کے پلینری سیشن میں 15 ہزار اراکین موجود تھے۔ بھارتی وزیر اعظم دراصل گزشتہ دنوں میں حکومتی حلقوں میں پائے جانے والے متعدد کرپشن سکینڈلز کے سلسلے میں عوام اور اپوزیشن کی جانب سے برہمی اور تنقید کا سامنا کر رہے ہیں۔ خاص طور سے بھارت میں ٹیلی مواصلات کے وزیر اندیموتھو راجہ کی موبائل فون کمپنیوں کو bandwidth کی فروخت سے متعلق وفاقی سطح پر چھان بین کے بعد سامنے آنے والے بدعنوانی کے الزامات کے ضمن میں چھڑنے والی بحث حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس کے سبب متعلقہ وزیر نے اپنے استعفے کا اعلان یہ کہہ کر کیا تھا کہ وہ حکومت کو شرمندگی سے بچانا چاہتے ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ملکی پارلیمان کی معمول کی کارروائی میں کوئی خلل پڑے۔
ان کے مستعفی ہو جانے کے بعد اپنے فوری رد عمل میں اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان کے من موہن سنگھ حکومت سے اخراج کے فیصلے کو جمہوریت کی فتح قرار دیا۔ اندیموتھو راجہ سے پہلے اسی مہینے بھارت میں حکمران کانگریس پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے دو دیگر سیاستدان بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔ ان سیاستدانوں کو بھی اپنے اپنے شعبوں میں کرپشن کے الزامات کا سامنا تھا۔
اُدھر اپوزشن جماعتوں نے دھمکی دی ہے کہ حکومت بدعنوانی کے واقعات کی چھان بین کے لئے مزید سخت اقدامات کرنے کے لئے ایک مشترکہ پارلیمانی انکوائری پر اتفاق نہیں کرتی تو وہ آئندہ فروری کے پارلیمانی سیشن اور دیگر حکومتی اجلاس منعقد نہیں ہونے دیں گے۔
واضح رہے کہ بھارت کی ٹیلی مواصلات کی وزارت کو 39 بلین ڈالر کے لائسنس جاری کرنے کے سکینڈل کا سامنا ہے جو 2007 اور 2008 کے درمیان جاری کئے گئے تھے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل