الشباب: قرن افریقہ میں مذہبی کشمکش کا سبب
29 جولائی 2011الشباب تنظیم نے صومالیہ کو قرن افریقہ کا ایک ایسا علاقہ بنایا ہوا ہے، جو جہادی جنگجوؤں کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ ہے۔ الشباب مغربی امدادی تنظیموں کے ساتھ اشتراک عمل کو سرے سے رد کرتی ہے۔
صومالیہ کو کوئی دس برسوں سے ایک ایسے ملک کی حیثیت حاصل ہے، جو مسلسل بھوک کی ہنگامی صورتحال اور خانہ جنگی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے۔ صومالیہ کے لیے یورپی یونین کے نگراں Georges-Marc Andre کے بقول،‘1991ء میں محمد زیاد بارے کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے صومالیہ میں ایک طرح کا خلاء پیدا ہوا گیا تھا، تب یہ ملک بنیاد پرست مسلم انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہوں نے حکومتی تعلیمی اداروں کی جگہ مدرسے قائم کر دیے اور وہاں وہابی اسلام کا پرچار ہونے لگا۔ اس طرح ایک ایسے ملک میں، جہاں اسلام کی نسبتاً نرم شکل پائی جاتی تھی، وہابیوں کی ایک نئی پود ابھر کر سامنے آئی، جو خود کو الشباب کا نام دیتے ہیں’۔
الشباب صومالیہ میں شرعی عدالتوں کی تحریک کی عسکری شاخ تصور کی جاتی ہے، جسے امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ یہ دراصل ’یونین آف اسلامک کورٹس‘ کا ایک ’ایلیٹ ملیشیا‘ گروپ ہے، جو 2006ء سے موغادیشو اور مرکزی صومالیہ کے بیشتر حصے کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ عرب دہشت گرد تنظیم القاعدہ کو اس تنظیم پر غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا ہے۔ الشباب نے اپنے ایجنڈے میں توسیع کر کے اسے القاعدہ کے مقاصد جیسا کر دیا ہے۔
2006ء میں ایتھوپیا نے فوجی دستے صومالیہ بھیجے تھے، جو دو سال بعد ہی اپنے ملک واپس چلے گئے۔ دریں اثناء صومالیہ میں الشباب گروپ مزید بنیاد پرست اور کٹر ہو چکا ہے۔
الشباب ہی نے مبینہ طور پر 2010ء میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران پڑوسی ملک یوگنڈا میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے موقع پر ایک ریستوراں میں ہونے والے خوفناک بم دھماکے کے نتیجے میں 74 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جرمن شہر فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر سیاسیات اور صومالیہ پر گہری نظر رکھنے والے Mathias Weber کہتے ہیں،’جون میں مشرقی افریقہ کا القاعدہ کا لیڈر فاضل عبداللہ محمد موغادیشو میں مارا گیا تھا۔ القاعدہ صومالیہ کو بھی افغانستان کی طرح جنگجوؤں کے لیے حفاظتی ٹھکانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں، جن سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان، افغانستان، اپتھوپیا اور یمن کے غیر ملکی جنگجو صومالیہ میں دندناتے پھر رہے ہیں اور وہاں لڑ رہے ہیں‘۔
اب ہنگامی امداد کے منتظر صومالی باشندوں کے لیے بھیجی جانے والی بین الاقوامی امداد الشباب کے لیے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔
رپورٹ: دانیل شیشکے ویٹس/ کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی