القاعدہ اور طالبان میں نظریاتی تفریق، امریکی ماہرین کی رائے
7 فروری 2011امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے نظریات میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں گوریلا گروپوں کو القاعدہ کے خلاف مائل کرتے ہوئے اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹوکے مطابق رواں سال کے دوران افغان دستوں کو ملک میں داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں سونپنے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ نیٹوکے بقول ذمہ داریوں کی منتقلی کا یہ عمل مرحلہ وار اور صوبہ بہ صوبہ مکمل کیا جائے گا۔ اس طرح 2014ء تک افغان فورسز پورے ملک کا سکیورٹی انتظام اپنے ہاتھوں میں لینے کے قابل ہوجائیں گی۔
اس کے علاوہ نیٹوکو یہ امید بھی ہے کہ تب تک افغان فوج اور پولیس کی نفری مشترکہ طور پر تین لاکھ تک پہنچ جائے گی، جو اس وقت ملک میں موجود ایک لاکھ چالیس ہزار غیر ملکی فوجیوں کی جگہ سلامتی کے انتظامات سنبھال لے گی۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق یونیورسٹی ماہرین کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر2001ء کے حملوں سے قبل ان دونوں گروپوں کے رہنماؤں کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عداوت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ایلیکس اسٹرک اور فیِلکس کیوہن کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کے خلاف بڑا آپریشن کیا جاتا ہے، تواس سے حالات کو معمول پر لانا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ اسٹرک اور کیوہن ایک طویل عرصے تک افغانستان میں کام کرتے رہے ہیں۔
Separating Taliban from Al-Qaeda: Core of Success کے نام سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ’’اگر طالبان کے سرکردہ رہنماؤں یا کمانڈروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس سے ایسے نوجوانوں کے لیے اس تحریک میں شامل ہونے کے راستے کھل جائیں گے، جو زیادہ شدت پسند ہیں۔ اس صورتحال سے سب سے بڑا فائدہ القاعدہ ہی کو ہو گا۔‘‘
اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ طالبان کی سینئر قیادت سے بات چیت کرے، قبل اس کے کہ ان لیڈروں کی اپنی ہی تحریک پر گرفت کمزور پڑ جائے۔
اس رپورٹ میں نیٹو کی مخالفت تو نہیں کی گئی تاہم یہ ضرور کہا گیا کہ نیٹو کوجنگی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مذاکرات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے ان اسکالرز کے مطابق،’افغانستان کے مسئلے کا حل صرف سیاسی کوششوں کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح عسکریت پسندی میں اضافے کا سبب بننے والی وجوہات میں کمی واقع ہو گی، ورنہ یہ بحران مزید بڑھ بھی سکتا ہے‘۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک