القاعدہ کے لیے ایک اور دھچکا، یونس الموریطانی گرفتار
6 ستمبر 2011یونس الموریطانی کو جنوب مغربی شہر کوئٹہ کے مضافات سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ابیٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعلقات شدید تناؤ کا شکارتھے تاہم اس تازہ کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جوش ایرنسٹ کا کہنا تھا، ’’یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دیرینہ شراکت داری کی ایک واضح مثال ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران باہمی تعاون سے کئی اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم پاکستانی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کی تعریف کرتے ہیں، جنہوں نے اس سینئر القاعدہ رکن کو پکڑا، جو امریکہ سمیت کئی یورپی ملکوں پر حملوں کا ارادہ رکھتا تھا۔‘‘
پاکستانی آرمی کے بیان کے مطابق القاعدہ کے اس کلیدی رہنما کو اسامہ بن لادن نے ذاتی طور پر امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں اقتصادی اہمیت کے حامل اہداف کو نشانہ بنانے کا کہہ رکھا تھا۔ بیان کے مطابق، ’’الموریطانی گیس، تیل اور بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات پر حملوں کے علاوہ بارود سے لدی تیز رفتار کشتیوں کے ذریعے بین الاقوامی سمندری پانی میں موجود بحری جہازوں اور تیل بردار ٹینکروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔‘‘
الموریطانی کے ساتھ گرفتار کیے گئے القاعدہ کے دیگر دو اہم کارکنوں کے نام عبدالغفار الشامی اور میسرا الشامی بتائے گئے ہیں۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ان گرفتاریوں کے سلسلے میں پاکستانی سکیورٹی اداروں کو معلومات اور تکنیکی مدد فراہم کی گئی تھی۔ اس اہلکار کے مطابق الموریطانی کا یورپ میں حملوں اور امریکی مفادات کے خلاف منصوبوں میں انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ یہ مشکل ترین کام سر انجام دینے کا سہرا پاکستانی سکیورٹی اداروں کے سر جاتا ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
امریکی حکام کا مزید کہنا تھا کہ 22 اگست کے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کا ڈپٹی چیف عطیہ عبدالرحمان بھی مارا گیا تھا تاہم پاکستانی حکام کی طرف سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر