الیکشن 2024ء: تین خواتین اور تبدیلی کا خواب
6 فروری 2024پاکستان کا آئین صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتیں شاذ و نادر ہی خواتین کو اس کوٹے کے علاوہ انتخاب لڑنے کی اجازت دیتی ہیں۔
اس رپورٹ میں انتخاب لڑنے اور اپنی کمیونیٹیز کی زندگیاں بدلنے کے لیے کوشاں تین خواتین کے خصوصی انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔
زیبا وقار
یوٹیوبر زیبا وقار کی آن لائن پلیٹ فارمز پر کئی لاکھ خواتین کی ''وفادار فالوونگ‘‘ ہے لیکن رواں ہفتے ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ وہ الیکشن میں اپنی مقبولیت کا امتحان لیں گی۔ پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے مضافات سے وہ پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ دائیں بازو کی پارٹی جماعت اسلامی کی رکن ہیں۔
خواتین ہر ہفتے ان کے آن لائن پروگرامز میں شرکت کرتی ہیں، جہاں وہ انہیں اسلام کے مطابق ان کے حقوق کے بارے میں بتاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی تاریخ کے بارے میں کہانیاں بھی شیئر کرتی ہیں۔
زیبا وقار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میری معروف براڈ کاسٹ وہ ہیں، جو میں فیس بک اور یوٹیوب پر لائیو کرتی ہوں۔ وہ ون آن ون سیشن کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ بعض اوقات میں ان سوالوں کے جواب دیتی ہوں، جو لوگ نشریات کے دوران پوچھتے ہیں۔‘‘
جن لوگوں کی وہ تبلیغ کرتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط طبقے ہے لیکن اشرافیہ کی خواتین بھی ہیں، جو تعلیمی مواد کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کر رہی ہیں۔
زیبا وقار ایک آن لائن انسٹی ٹیوٹ بھی چلاتی ہیں، جہاں نوجوان خواتین، بشمول اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل لڑکیاں قرآن سیکھتی ہیں۔
زیبا وقارکے مطابق اگر وہ منتخب ہوئیں تو خواتین کو درپیش معاشی مسائل کو دور کریں گی، ان کی پیشہ ورانہ تربیت کو بہتر بنانے اور خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو کم کرنے کے لیے مضبوط قوانین متعارف کروانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔
ثمر ہارون بلور
ثمر بلور المناک حالات کے دوران سیاست میں آئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کی انتخابی مہم کو اس وقت سنبھالا، جب انہیں گزشتہ انتخابات سے کچھ وقت قبل عسکریت پسندوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
گزشتہ انتخابات کے دوران بینرز پر ان کا نام یا تصویر تک نہیں تھی۔ یہ خوف تھا کہ سماجی طور پر قدامت پسند معاشرے میں اس بات کو نامناسب سمجھا جائے گا۔ ثمر ہاروں کہتی ہیں، ''مرد ایک نوجوان، متحرک اور مغرب زدہ پشتون عورت کو پسند نہیں کرتے۔‘‘پاکستان میں انتخابی مہم کے دوران اکثر پُرتشدد واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جنوری میں صوبہ خیبر پختونخوا میں دو امیدواروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد وہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں پہلی خاتون صوبائی رکن اسمبلی بنی تھیں لیکن اس کے لیے عوامی ورکرز پارٹی کی ان خاتون سیاستدان کو شدید مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں، ''اگر لوگ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھتے، تو وہ ایسی باتیں کرتے تھے، اوہ! وہ خوش ہے کہ اس کا شوہر مر گیا ہے۔‘‘
تاہم اس مرتبہ بھی قدامت پسند معاشرے میں اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق اور ان کی ''آزادی‘‘ کے لیے پرعزم ہیں۔
سویرا پرکاش
25 سالہ سویرا پرکاش پاکستانی سیاست میں اپنے پروفائل کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ ملک کے ایک قدامت پسند علاقے میں ایک نوجوان ہندو عورت کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ سویرا نے حال ہی میں ایک ڈاکٹر کے طور پر گریجویشن کی تعلیم مکمل کی ہے۔ ان کے والد سکھ اور والدہ مسیحی ہیں جبکہ وہ خود ہندو ہیں۔
پاکستان میں مذہبی تناؤ بھی ہے اور حقوق نسواں کو بھی بڑی حد تک شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں سویرا پرکاش کہتی ہیں، ''دنیا کا کوئی مذہب انسان کو برے کام کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ ہر مذہب انسان کو اچھے کاموں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کا حلقہ طویل عرصے سے مذہبی ہم آہنگی کا ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صنفی بنیاد پر امتیاز اب بھی برقرار ہے۔ بونیر شہر میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''مرکزی دھارے کی سیاست میں میری پیش قدمی کا مقصد ایسے صنفی تعصبات کا مقابلہ کرنا اور خواتین کی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔‘‘
وہ پہلے کبھی کسی اسمبلی کی رکن منتخب نہیں ہوئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی ویمن ونگ کو لیڈ کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب تک خواتین معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک ملک یا گھر میں استحکام نہیں آ سکتا۔
ا ا/ا ب ا (اے ایف پی)