امريکا ميں جاری بحث سے ’ری سيٹلمنٹ‘ پروگرام متاثر
8 دسمبر 2015اقوام متحدہ کی جانب سے يہ تنبيہ ری پبلکن جماعت کے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بيان کے بعد کی گئی ہے، جس ميں انہوں نے مسلمانوں کے امريکا ميں داخلے پر مکمل پابندی کا کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے پناہ گزين UNHCR کی ترجمان مليسا فليمنگ نے گرچہ براہ راست ٹرمپ کے بيان پر کوئی جواب نہيں ديا تاہم ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ اس نوعيت کے بيان کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔
ايک سوال کے جواب ميں مليسا فليمنگ نے بتايا کہ امريکا ميں ادارے کا ايک انتہائی اہم ’ری سيٹلمنٹ‘ پروگرام ہے، جس کے ذريعے شامی پناہ گزينوں کو وہاں منتقل کيا جانا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چيت کرتے ہوئے ان کا مزيد کہنا تھا، ’’ہم فکر مند ہيں کہ انتخابی مہم ميں جس موضوع کو طول دی جا رہی ہے اور جس پر بحث جاری ہے، اس کی وجہ سے انتہائی اہم پروگرام متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
يو اين ايچ ی آر کی خاتون ترجمان نے بات چيت ميں چند امريکی رياستی گورنرز کے اس مطالبے کا بھی ذکر کيا، جس ميں انہوں نے فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں گزشتہ ماہ ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں شامی پناہ گزينوں کی امريکا منتقلی کے مجوزہ عمل کو روکنے کا کہا تھا۔ اس بارے ميں فليمنگ کا کہنا تھا، ’’امريکی صدر باراک اوباما کی انتظاميہ اس پروگرام کو لے کر چل رہی ہے۔ يہ شرمناک بات ہو گی کہ اگر اس پروگرام کو روک ديا جائے۔‘‘
اس موقع پر خاتون ترجمان نے واضح کيا کہ امريکا اب بھی سالانہ ايک لاکھ يعنی دنيا ميں سالانہ بنيادوں پر سب سے زيادہ تارکين وطن کو پناہ فراہم کرتا ہے۔
شام ميں روس اور امريکا کی قيادت ميں اتحادی افواج کی بمباری کے بارے ميں بات کرتے ہوئے فليمنگ نے بتايا کہ اسی سبب حاليہ چند ہفتوں ميں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد ميں اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ گرچہ اضافی فضائی بمباری کے جامع اثرات کے بارے ميں بات کرنا قبل از وقت ہو گا تاہم زمينی صورتحال، پر تشدد واقعات اور شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ کی کارروائيوں کے نتيجے ميں بھی لوگ بے گھر ہو رہے ہيں۔
شام ميں مارچ سن 2011 سے جاری خانہ جنگی کے سبب اب تک قريب ڈھائی افراد ہلاک اور چار ملين سے زائد بے گھر ہو چکے ہيں۔