امريکی صدر کا دورہ ڈيلس اور دس ملين ڈالر کا عشائيہ
12 جون 2020امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کی دوپہر دارالحکومت واشنگٹن سے ڈيلس پہنچے۔ ان کے اس دورے کا مقصد پوليس کی متنازعہ سرگرميوں اور نسل پرستی جيسے اہم مسائل پر روشنی ڈالنا اور اپنی انتخابی مہم کے ليے فنڈ جمع کرنا تھا۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب نافذ لاک ڈاؤن کے بعد ٹرمپ کا يہ پہلا فنڈ ريزنگ دورہ ہے، جسے 'دس ملين کيمپين ڈنر‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ يہ عشائيہ ڈيلس ميں مقيم ارب پتی کيلسی وارن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اس ميں کُل پچيس لوگوں نے شرکت کی اور فی جوڑا 580,600 چارج کيے گئے۔ محفل ميں شرکت سے پہلے ہر شخص کا کورونا وائرس کا ٹيسٹ بھی کرايا گيا۔ صدر ٹرمپ نے ڈونرز کے ساتھ تقريباً ايک گھنٹہ گزارا۔ اس موقع پر کيلسی وارن کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرين جمع ہو گئے اور انہوں نے صدر ٹرمپ کے خلاف نعرے بازی کی۔
ڈيلس کے اس دورے کا آغاز شہر کے امير ترين علاقے ميں واقع گيٹ وے چرچ سے ہوا، جہاں بھاری اکثريت ميں سفيد فام آبادی رہائش پذير ہے۔ وہاں ايک اجلاس ہوا، جس ميں حاليہ نسل پرستانہ واقعات کے تناظر ميں پوليس کی از سر نو تربيت اہم موضوع رہا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ جو کچھ ہوا، يقيناً بہت برا ہوا مگر اس کے بعد جو لوٹ مار ہوئی، وہ بھی بے عزتی کا باعث بنی۔ کانفرنس ميں انہوں نے پوليس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ محکمہ پوليس کا خيال رکھيں گے اور ان کو بہترين تربيت اورجديد ہتھيار مہيا کيے جائيں گے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے اپوزيشن ڈيموکريٹک پارٹی کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پارٹی پوليس کو نسل پرستی کے مسئلے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، جو غلط ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزيد کہا کہ ان کی قيادت ميں بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ اس موقع پر بھی گرجا گھر کے باہر مظاہرين جمع ہوئے اور انہوں نے نسل پرستی کے خلاف احتجاج کيا۔
گيٹ وے چرچ ميں منعقدہ کانفرنس ميں شہر ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک تين انتہائی اہم افريقی امريکی اعلیٰ حکام کو مدعو نہيں کيا گيا، جن کی عدم موجودگی ميڈيا ميں تمام دن موضوع بحث بنی رہی۔ ان حکام ميں ڈيلس پوليس چيف رنئے ہال، ڈيلس کاونٹی شيرف ڈپارٹمنٹ کے شيرف ميرين براؤن اور ڈيلس ڈسٹرکٹ اٹارنی جان کروزاٹ شامل ہيں۔ شيرف براؤن کا اس صورتحال پر کہنا تھا کہ انہيں نہيں معلوم کہ انہيں اس کانفرنس ميں کس وجہ سے نہيں بلايا گيا۔ انہوں نے مزيد کہا کہ 'اگر اجلاس منقعد کرنے کا مقصد مکالمہ شروع کرنا تھا، تو اسے ڈيلس ميں قانون نافذ کرنے والے تين اعلی حکام کی عدم موجودگی ميں کرنا بہت کچھ بتا رہا ہے۔ صدر صاحب ان لوگوں کو ہی شامل نہيں کر رہے، جو شہر ميں ان قوانين کا نفاذ يقينی بنائيں گے۔‘
سياسی مبصرين کے مطابق اس کانفرنس ميں پوليس کے انتظامی مسائل پر بات نہيں کی گئی، جو بہت ضروری تھا اور اگر ہوئی بھی، تو بہت ہی محدود۔ ديکھنا يہ ہے کہ آيا صدر پوليس کی بے جا طاقت کے استعمال پر جن حکم ناموں کو جاری کرنے کی بات کر رہے ہيں، وہ ان پر سنجيدہ ہيں بھی يا نہيں۔ ناقدين نے ان کے اس بيان پر بھی اعتراض کيا، جس ميں انہوں نے کہا کہ 'وہ شفقت سے شہروں کی سڑکوں پر 'قابض‘ ہو جائيں گے‘۔ سياسی ماہرين کے مطابق کسی پر قابض ہونا 'شفقت‘ نہيں بلکہ طاقت کا غلط استعمال ہے اور ان باتوں سے اس انتظاميہ کے مقاصد ظاہر ہوتے ہيں اور اس مسئلے کے بارے ميں ان کی غير سنجيدگی بھی۔
اس حوالے سے پاکستانی نژاد امريکی ری پبلکن سياستدان اور ریاست ٹيکساس کے شہر پيرس سے تين دفعہ منتخب ہونے والے (سابق) ميئر ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''صدر ٹرمپ کو ڈيلس پوليس چيف رنئے ہال، ڈيلس کاونٹی شيرف ڈپارٹمنٹ سے شيرف ميرين براون اور ڈيلس ڈسٹرکٹ اٹارنی جان کروزاٹ کو مدعو کرنا چاہيے تھا۔‘‘ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کيونکہ ہر کسی کا نقطہ نظر الگ ہوتا ہے، اگر کوئی آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے، تو اسے سننا چاہيے، اس سے آپ سيکھتے ہيں۔‘‘ ڈی ڈبليو نے جب ان سے صدر ٹرمپ کے امن پسند احتجاجی مظاہرين کو آنسو گيس اور طاقت کے بے جا استعمال سے منتشر کر کے چرچ کے سامنے تصوير کھنچوانے کے بارے ميں سوال کيا، تو ان کا کہنا تھا، ''اگر ان کو چرچ کے باہر بائبل اٹھا کر تصوير کھنچوانا ہی تھا، تو انہيں چرچ کے اندر بھی جانا چاہيے تھا۔‘‘
ڈيلس مسلم ڈيموکريٹک کاکس کے سابق صدر آفتاب صديقی نے صدر ٹرمپ کے ڈيلس کے دورے کے حوالے سے ڈی ڈبليو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''تاريخی اعتبار سے امريکی قوم جب بھی کسی بڑے قومی الميہ کا شکار ہوئی تو ہم ديکھا کہ اس وقت کے صدر نے ايک ليڈر کی طرح قوم کو جوڑا اور ان کے جذبات کو سمجھا مگر ٹرمپ قوم کو جوڑنے کے بجائے اسے تقسيم کرنے پر تلے بيٹھے ہيں اور اتنے بڑے سانحے کا نہ صرف استحصال کر رہے ہيں بلکہ اس پر سياست بھی کر رہے ہيں۔‘‘
اس دورے کے دوران ہی واشنگٹن ڈی سی سے ايک بڑی خبر چيئرمين آف جوائنٹ چيف آف اسٹاف جنرل مارک ملّی کا معافی نامہ تھی۔ يہ معافی نامہ صدر ٹرمپ کے چرچ کے باہر ہوئے متنازعہ 'فوٹو آپ‘ اور اس ميں جو کردار جنرل ملّی نے ادا کيا، اس کے تناظر ميں جاری کيا گيا۔ نيشنل ڈيفنس يونيورسٹی کو جاری کيے اپنے اس ويڈيو پيغام ميں انہوں نے کہا کہ انہيں اس وقت وہاں موجود نہيں ہونا چاہيے تھا۔ ان کی موجودگی سے يہ تاثر پيدا ہوا کہ جيسے فوج داخلی سياست کا حصّہ ہے۔ اس واقعے کے بعد جنرل ملی کا يہ پہلا بيان ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے صدر ٹرمپ اور پينٹاگون کے تعلقات سول ملٹری تقسيم کی عکاسی کر رہے ہيں، جو کہ ويت نام کی جنگ کے بعد ايک بار پھر ابھرتے نظرآ رہے ہيں۔
اس سلسلے ميں اسٹينفرڈ يونيورسٹی کے پوليٹکل سائنسز کے پروفيسر ڈاکٹر اسفند يار مير نے ڈی ڈبليو اردو سے بات کرتے ہوۓ کہا، ''جو سياسی چوٹ صدر ٹرمپ کو پچھلے چند ہفتے ميں پہنچی ہے، ان کو صرف ريلياں آف سيٹ نہيں کر سکتيں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آنے والا وقت بتائے گا کہ صدر ٹرمپ اپنی سياسی طاقت کو کيسے استعمال کرتے ہيں۔ ڈاکٹر مير نے کہا، ''صدر ٹرمپ اور ملٹری کے تعلقات گزشتہ دنوں عوامی سطع پر ناگزير ہوئے جس کی وجہ ان کا فوج کو داخلی امور ميں گھسيٹنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اميگريشن اصلاحات اور جنگيں ختم کر کے اپنا سياسی قد بڑھانے کی کوشش کريں۔‘‘
اس وقت ديکھنا يہ ہے کہ لوگ جس طرح مظاہروں کے ليے گھروں سے باہر نکلے ہيں، کيا ووٹ ڈالنے کے ليے بھی اسی تعداد ميں نکليں گے کيونکہ آنے والے انتخابات کا فيصلہ مظاہرے نہيں بلکہ امريکی عوام کی انتخابات ميں شرکت کرے گی۔