امریکا افغانستان کی تعمیر کرنے نہیں گیا تھا، جو بائیڈن
9 جولائی 2021امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا افغانستان میں اپنا فوجی مشن 31 اگست تک ختم کردے گا۔ بائیڈن نے اس سے قبل گیارہ ستمبر سے پہلے افغانستان سے اپنی پوری فوج واپس بلا لینے کا وعدہ کیا تھا۔
بائیڈن نے کیا کہا؟
بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا،”ہم افغانستان میں ملک کی تعمیر کرنے نہیں گئے تھے۔ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا افغان رہنماوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ ایک ساتھ مل کر فیصلہ کریں کہ انہیں اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی فوجیوں کی واپسی پر یہ کہیں گے کہ 'مشن کامیاب رہا؟‘تو بائیڈن کا جواب تھا، ”مشن تبھی کامیاب ہوگیا تھا کہ جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ اور اب دنیا کے اس خطے سے دہشتگردی نہیں پھیل رہی۔" بائیڈن نے مزید کہا، ”ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے کہ ہم دیکھیں افغانستان میں امریکی سفارتخانے کی چھت سے لوگوں کو (ہیلی کاپٹر کے ذریعے) بچایا جائے۔“
امریکی افواج کی واپسی کی نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا،”افغانستان میں مزید ایک سال لڑائی اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے ہم وہاں ہمیشہ کے لیے لڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔" انہوں نے مزید کہا،” میں ایک مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں بھیجوں گا۔ آپ مزید کتنے، کتنے ہزار بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔“
جنگ کا فوجی حل نہیں
صدر بائیڈن نے کہا کہ انہیں طالبان پر بھروسا نہیں، لیکن انہیں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کی فوج کی اپنے ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت پر بھروسا ہے۔
امریکی صدر نے ایسی اطلاعات کی تردید کی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس قریب 75 ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں۔”طالبان شمالی ویتنام کی فوج نہیں۔ صلاحیت کے اعتبار سے ان کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔"
انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں۔ بائیڈن نے کہا کہ تاریخ میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں ملتی جس نے افغانستان کو کبھی متحد کر دیاہو۔
وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری جین ساکی نے اس سے قبل کہا تھا کہ امریکا افغانستان کے تنازعے کو سفارتی بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے اور یہ کہ وہ فوجی انخلا کے بعد اس ملک میں سفارتی اور انسانی ہمدردی کے کاموں سے متعلق اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صدر یہ سمجھتے ہیں کہ اس 20 سالہ جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
برطانیہ کی بیشتر فوج افغانستان سے واپس
بائیڈن کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب جمعرات کے روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بتایا کہ برطانیہ کی بیشتر فوج افغانستان سے واپس لوٹ چکی ہے۔
جانسن نے برطانوی پارلیمان میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،”افغانستان میں نیٹو کے مشن پر مامور تمام برطانوی فوجی وطن واپس پہنچ رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر وہاں سے نکل چکے ہیں۔"
نیٹو کے دیگر رکن ممالک مثلاً جرمنی نے بھی افغانستان سے اپنی فوج کا انخلاء مکمل کرلیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا،”کسی کو بھی پچھلے بیس برسوں کے فوائد پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ہم آج کی صورتحال کی سخت حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آج افغانستان کی صورتحال 20 سال پہلے کے مقابلے میں 'بہت مختلف‘ ہے، جب وہ ملک ’عالمی دہشت گردی کا مرکز‘ تھا۔“
گزشتہ بیس برسوں کے جنگ کے دوران برطانیہ کے 450 سے زائد فوجی مارے گئے۔
طالبان کا مزید علاقوں پر کنٹرول
امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے ساتھ ہی افغان حکومت سے مزید علاقے چھین لینے کا طالبان کا سلسلہ جاری ہے۔
افغان اور ایرانی میڈیا نے جمعرات کو بتایا کہ طالبان نے ایران جانے والی ایک اہم سرحدی راستے پر قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان نے اس سے قبل تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ ملحق اہم سرحدی راستوں پر قبضے کرلیے تھے۔ اطلاعات کے مطابق صوبہ بادغیس میں شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے صوبائی صدر مقام قلعہ نو کے گرد واقع تمام اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو بتایا کہ طالبان نے افغانستان میں درجنوں ڈسٹرکٹ سینٹروں پر کنٹرول کرلیا ہے۔
طالبان نے سفارت کاروں کی سلامتی کی یقین دہانی کرائی
طالبان کے ایک وفد نے جمعرات کے روز ماسکو کا دورہ کیا ہے۔ وفد نے روس کو یقین دہانی کرائی کہ اس کی فوجی کامیابی کے باوجود روس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے،”ہمیں طالبان کی طرف سے یقین دہانی ملی ہے کہ وہ وسطی ایشیائی ملکوں کی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور انہوں نے افغانستان میں غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی سلامتی کی ضمانت بھی دی ہے۔"
طالبان نے روسی عہدیداروں سے مبینہ طور پر کہا کہ وہ ”اسلامی شریعت کے دائرے اور افغان روایات کے عین مطابق" انسانی حقوق کا احترام کریں گے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)